Nabeel Ahmad Nabeel

نبیل احمد نبیل

نبیل احمد نبیل کی غزل

    آئی ہے ایسے غم میں روانی پرت پرت

    آئی ہے ایسے غم میں روانی پرت پرت بہنے لگا ہے آنکھ سے پانی پرت پرت باندھا ہے جب سے تیرے تصور کو شعر میں شعروں کے کھل رہے ہیں معانی پرت پرت چھایا رہا ہو جیسے بڑھاپا نفس نفس گزری ہے ایسے اپنی جوانی پرت پرت دل کے ورق ورق پہ ترا نام ثبت ہے اک تو ہی دھڑکنوں میں ہے جانی پرت پرت گرد و ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہیں تیار عمارت کو گرانے والے

    وہ ہیں تیار عمارت کو گرانے والے تو کہاں ہے مری بنیاد اٹھانے والے سوچتا ہوں سر ساحل کھڑا جانے کب سے ڈوب جاتے ہیں کہاں پار لگانے والے ان سے کہہ دو نہ کریں دست ہوس ہم پہ دراز ہم تو پینے سے زیادہ ہیں پلانے والے غم کی تعبیر سے پہلے مجھے معلوم نہ تھا میرے اشعار کو سنگیت بنانے ...

    مزید پڑھیے

    طے ہوا ہے اس طرف کی رہ گزر کا جاگنا

    طے ہوا ہے اس طرف کی رہ گزر کا جاگنا میرے پاؤں میں کسی لمبے سفر کا جاگنا بولتے تھے کیا پرندے سے در و دیوار پر یاد ہے اب بھی مجھے وہ اپنے گھر کا جاگنا اب کہاں موسم ہے وہ دار و رسن کا دوستو اب کہاں عشاق کے شانوں پہ سر کا جاگنا ورنہ مجھ کو دھوپ کا صحرا کبھی نہ چھوڑتا آ گیا ہے کام میرے ...

    مزید پڑھیے

    صورت گل کبھی زلفوں میں سجا کر لے جائے

    صورت گل کبھی زلفوں میں سجا کر لے جائے جب بھی چاہے وہ مجھے اپنا بنا کر لے جائے دل کو رکھا ہے سر راہ محبت کب سے کوئی تو آئے ادھر اور اٹھا کر لے جائے رات بھر جاگتا رہتا ہوں میں اس خوف کے ساتھ تجھ کو مجھ سے نہ کوئی شخص چرا کر لے جائے جب بھی آتی ہے کسی اور سے آندھی اکثر میرے آنگن سے ترے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تیری تمنا میں بسر ہو جائے

    زندگی تیری تمنا میں بسر ہو جائے اور کیا چاہئے جو بار دگر ہو جائے درد کی دھوپ ڈھلے آس کا موسم نکھرے تیرے امکان کا پودا جو شجر ہو جائے اپنی سچائی کا پھر مجھ کو یقیں آئے گا زینت دار و رسن میرا جو سر ہو جائے زندگی کرنے کا آ جائے سلیقہ جو ہمیں صورت خلد بریں اپنا یہ گھر ہو جائے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    سر جھکا کر شاہ کے دربار میں

    سر جھکا کر شاہ کے دربار میں چھید ہم نے سو کیے دستار میں زندگانی جیسی یہ انمول شے کاٹ دی ہے حسرت بے کار میں دامنوں میں بھرتے ہیں محرومیاں لے کے خالی جیب ہم بازار میں سرخیاں بن کر اگلتی ہے لہو آدمیت شام کے اخبار میں سر کو ٹکراتے رہے ہم عمر بھر در کوئی نکلا نہیں دیوار میں جس قدر ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو یہ ڈر ہے کہ امکان کسی اور کا ہے

    ہم کو یہ ڈر ہے کہ امکان کسی اور کا ہے یعنی وہ شخص نگہبان کسی اور کا ہے یہ جو ہر لحظہ دھڑکتے ہیں مرے سینے میں دل کسی اور کا ارمان کسی اور کا ہے غائبانہ یہی سمجھا وہ فقط میرا ہے جب ملا تو لگا نادان کسی اور کا ہے دستکیں سن کے ہی اندازہ ہوا تھا ہم کو وہ ہمارا نہیں مہمان کسی اور کا ...

    مزید پڑھیے

    جب سے امید باندھی پتھر پر

    جب سے امید باندھی پتھر پر دھول سی جم گئی مقدر پر کس نے چادر دھویں کی تانی ہے میرے جنت مثال منظر پر میرے چارہ گروں نے رکھا ہے ایک اک راستے کو ٹھوکر پر آسماں کی طلب میں کٹ کر بھی پھڑپھڑاتے رہے برابر پر پاس تیر و کماں کے ہوتے ہوئے خوف طاری ہے میرے لشکر پر جب گھڑی امتحان کی ...

    مزید پڑھیے

    بلا کی دھوپ میں ایسے بھی جسم جلتا رہا

    بلا کی دھوپ میں ایسے بھی جسم جلتا رہا بدن کا سایہ جو اپنے سروں سے ڈھلتا رہا ڈھلی نہ شام الم جب تلک سحر نہ ہوئی بجھے چراغ کی لو سے دھواں نکلتا رہا ملی نہ منزل مقصود اس لیے بھی مجھے میں ہر قدم پہ نیا راستہ بدلتا رہا جہاں بھی آنکھ چرائی سفر میں سورج نے کوئی ستارہ مرے ساتھ ساتھ چلتا ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو خار کسی سانس کو ببول کیا

    کسی کو خار کسی سانس کو ببول کیا جو ہم نے کار محبت کیا فضول کیا ہمیشہ خاک اڑائی ہے راستوں نے مری اس انتظار کی شدت نے مجھ کو دھول کیا سجا کے رکھ دیا کانٹا بھی میرے پہلو میں کسی بہار نے مجھ کو کبھی جو پھول کیا رہ حیات میں آسائشوں کو ٹھکرا کر تمہارے درد کو میں نے سدا قبول کیا ہمیشہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5