Nabeel Ahmad Nabeel

نبیل احمد نبیل

نبیل احمد نبیل کی غزل

    ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو

    ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو دل کے ہر زخم میں دریاؤں سی گہرائی ہو یوں گزرتے ہیں ترے ہجر میں دن رات مرے جان پہ جیسے کسی شخص کے بن آئی ہو پھول کی مثل سبھی داغ مہکنے لگ جائیں کاش ایسا بھی کہیں طرز مسیحائی ہو کیسا منظر ہو کہ سر پھوڑتے دیوانوں کے سنگ ہو ہاتھ میں اور سامنے ...

    مزید پڑھیے

    تم نے کیا ہے تم نے اشارا بہت غلط

    تم نے کیا ہے تم نے اشارا بہت غلط دریا بہت درست کنارا بہت غلط اس ہار میں ہے ہاتھ تمہارا بہت غلط تم نے کیا ہے فیصلہ سارا بہت غلط ہم ڈوب جائیں اپنے ہی غم کے بہاؤ میں ہاں ہاں غلط غلط مرے یارا بہت غلط اس کشت دل سے اس کے دل ریگ زار تک بہنے لگا ہے خون کا دھارا بہت غلط افسوس مجھ کو اس پہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کر اٹھتا ہوا شوق کا سر یعنی تو

    دیکھ کر اٹھتا ہوا شوق کا سر یعنی تو کاٹ ڈالے گا مرا دست ہنر یعنی تو میری تقدیر میں لکھے گا اندھیروں کا سکوت روند ڈالے گا مری تازہ سحر یعنی تو بس یہی ہے مرے دامان سفر میں اب تو میری منزل ہے مری راہ گزر یعنی تو جب بھی آئے گا سوا نیزے پہ خورشید غضب پھولنے پھلنے نہیں دے گا شجر یعنی ...

    مزید پڑھیے

    دل دھڑکنوں میں جیسے دھڑکتا اسی کا تھا

    دل دھڑکنوں میں جیسے دھڑکتا اسی کا تھا جیسے مرے وجود پہ چہرہ اسی کا تھا رکھا ہوا تھا جس کو زمانے سے دور دور ہر لب پہ اس کا تذکرہ چرچا اسی کا تھا آنے دیا نہ چین کبھی ایک پل مجھے میرے تصورات میں دھڑکا اسی کا تھا جس نے تمام شہر کھنڈر میں بدل دیا سکہ تمام شہر میں چلتا اسی کا تھا یوں ...

    مزید پڑھیے

    لہو کی آنچ جیسا ہو رہا ہے

    لہو کی آنچ جیسا ہو رہا ہے تمہارا غم ستارہ ہو رہا ہے یہ کون آیا ہے بام آرزو پر فضاؤں میں اجالا ہو رہا ہے جھڑی ہے دھول کس کے نقش پا سے بہت آسان رستہ ہو رہا ہے سکڑتی جا رہی ہے مجھ پہ دھرتی بدن میرا کشادہ ہو رہا ہے مری پلکوں پہ اک موہوم آنسو کہ شبنم سے شرارہ ہو رہا ہے سمجھتی ہے یہی ...

    مزید پڑھیے

    ہزار کوشش پیہم کے باوجود ہمیں (ردیف .. ا)

    ہزار کوشش پیہم کے باوجود ہمیں تمام عمر کوئی دوست با وفا نہ ملا کہاں کا وصل ملاقات ہی غنیمت ہے پھر اس کے بعد وہ ہم سے ملا ملا نہ ملا وہ جس کو ہم نے زمانے سے بڑھ کے چاہا تھا اس ایک شخص کی چاہت میں کچھ مزا نہ ملا تری جدائی کے صحرا میں کھو گئے ایسے سراغ اپنا کہیں اور کہیں پتا نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم پاؤں میں ہیں انگارے

    ہر قدم پاؤں میں ہیں انگارے تیری رائے ہے کیا خدا بارے دونوں کس بے بسی میں ملتے ہیں آہوئے جاں غزال تاتارے پاؤں ٹکتا نہیں زمیں پہ کہیں سر پہ کیا گھومتے ہیں سیارے آنکھ کی راہ سے نکل آئے چاند راتوں کے سرد مہ پارے یہ نہ سمجھو گنہ گار نہیں کوئی پتھر اگر اٹھا مارے

    مزید پڑھیے

    چور تھے لوگ جو سنگینیٔ ہجرت سے یہاں

    چور تھے لوگ جو سنگینیٔ ہجرت سے یہاں سانس بھی آتا نہیں ان کو سہولت سے یہاں وہ کسی پھول کسی غنچے کے حق دار نہیں دشت گلزار بناتے ہیں جو محنت سے یہاں چوغا پہنایا گیا جھوٹ کا سچائی کو اور معانی لیے نفرت کے محبت سے یہاں ہم نے بنیاد رکھی زہر بجھے سجدوں کی تیغ کا کام لیا ہم نے عبادت سے ...

    مزید پڑھیے

    اک یہی اب مرا حوالہ ہے

    اک یہی اب مرا حوالہ ہے روح زخمی ہے جسم چھالا ہے سیکڑوں بار سوچ کر میں نے تیرے سانچے میں خود کو ڈھالا ہے کھنچنے والا ہے آسماں سر سے حادثہ یہ بھی ہونے والا ہے اک خدا ترس موج نے مجھ کو ساحلوں کی طرف اچھالا ہے غالب آئی ہوس محبت پر آرزوؤں کا رنگ کالا ہے اک طرف جام عافیت کے ہیں اک ...

    مزید پڑھیے

    کرن کرن یہ کسی دیدۂ حسد میں ہے

    کرن کرن یہ کسی دیدۂ حسد میں ہے ہر اک چراغ ہمارا دھویں کی زد میں ہے جسے نکالا ہے ہندسوں سے زائچہ گر نے بقا ہماری اسی پانچ کے عدد میں ہے ہر ایک شخص کی قامت کو ناپ اور بتا مرے علاوہ یہاں کون اپنے قد میں ہے گھروں کے صحن کچھ ایسے سکڑ سمٹ گئے ہیں ہر ایک شخص مکیں جس طرح لحد میں ہے لگے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5