ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو
ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو دل کے ہر زخم میں دریاؤں سی گہرائی ہو یوں گزرتے ہیں ترے ہجر میں دن رات مرے جان پہ جیسے کسی شخص کے بن آئی ہو پھول کی مثل سبھی داغ مہکنے لگ جائیں کاش ایسا بھی کہیں طرز مسیحائی ہو کیسا منظر ہو کہ سر پھوڑتے دیوانوں کے سنگ ہو ہاتھ میں اور سامنے ...