Muzaffar Warsi

مظفر وارثی

مظفر وارثی کی غزل

    یہ فیصلہ تو بہت غیر منصفانہ لگا

    یہ فیصلہ تو بہت غیر منصفانہ لگا ہمارا سچ بھی عدالت کو باغیانہ لگا ہمارے خون سے بھی اس کی خوشبوئیں پھوٹیں ہمیں تو قتل بھی کر کے وہ بے وفا نہ لگا لگائی آگ بھی اس اہتمام سے اس نے ہمارا جلتا ہوا گھر نگار خانہ لگا ہم اتنا روح کی گہرائیوں کے عادی تھے کہ ڈوبتا ہوا دل ڈوبتا ہوا نہ ...

    مزید پڑھیے

    منتظر رہنا بھی کیا چاہت کا خمیازہ نہیں

    منتظر رہنا بھی کیا چاہت کا خمیازہ نہیں کان دستک پر لگے ہیں گھر کا دروازہ نہیں ہاتھ پر تو نے مقدر کی لکیریں کھینچ دیں کیا تجھے بھی میرے مستقبل کا اندازہ نہیں دیکھنا چاہوں تو خوشبو، چھونا چاہوں تو ہوا میرے دامن تک جو آئے تو وہ شیرازہ نہیں دفن ہوں احساس کی صدیوں پرانی قبر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کھنچ گئی مجھ سے ترے ابرو کی طرح

    زندگی کھنچ گئی مجھ سے ترے ابرو کی طرح اپنے ہی خون کا پیاسا ہوں لب جو کی طرح وہ ستارا جو مرے نام سے منسوب ہوا دیدۂ شب میں ہے اک آخری آنسو کی طرح شعلۂ سوز دروں سرد ہوا جاتا ہے کوئی سمجھائے صبا کو کہ چلے لو کی طرح کوئی دیوانہ اٹھے خاک اڑانے کے لئے آج بھی دشت ہیں پھیلے ہوئے بازو کی ...

    مزید پڑھیے

    تیری جھلک نگاہ کے ہر زاویے میں ہے

    تیری جھلک نگاہ کے ہر زاویے میں ہے دیکھوں تو شکل اپنی مرے آئنے میں ہے لٹکی ہوئی ہے روح کی سولی پہ زندگی سانسوں کا سلسلہ ہے کہ رسی گلے میں ہے کانٹوں کی پیاس نے مجھے کھینچا برہنہ پا جیسے بھری سبیل ہر اک آبلے میں ہے سانسوں کی اوٹ لے کے چلا ہوں چراغ دل سینے میں جو نہیں وہ گھٹن راستے ...

    مزید پڑھیے

    ڈبونے والوں کو شرمندہ کر چکا ہوں گا

    ڈبونے والوں کو شرمندہ کر چکا ہوں گا میں ڈوب کر ہی سہی پار اتر چکا ہوں گا پہنچ تو جاؤں گا آب حیات تک لیکن زباں بھگونے سے پہلے ہی مر چکا ہوں گا سنائی جائے گی جب تک مجھے سزائے سخن سکوت وقت میں آواز بھر چکا ہوں گا مثال ریگ ہوں میں ساعتوں کی مٹھی میں وہ جب تک آئے گا سارا بکھر چکا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے

    نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے سحر ہوئی تو خراشیں چنیں بچھونے سے صدف لیے ہوئے ابھری ہے لاش بھی میری بچا رہے تھے مجھے لوگ غرق ہونے سے ہنر ہے تجھ میں تو قائل بھی کر زمانے کو چمک اٹھے گی نہ شکل آئنے کو دھونے سے لپٹ رہی ہیں مرے راستوں سے روشنیاں نظر میں لوگ ہیں کچھ سانولے سلونے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسا اترا میں اس سنگ دل کے شیشے میں

    کچھ ایسا اترا میں اس سنگ دل کے شیشے میں کہ چند سانس بھی آئے نہ اپنے حصے میں وہ ایک ایسے سمندر کے روپ میں آیا کہ عمر کٹ گئی جس کو عبور کرنے میں مجھے خود اپنی طلب کا نہیں ہے اندازہ یہ کائنات بھی تھوڑی ہے میرے کاسے میں ملی تو ہے مری تنہائیوں کو آزادی جڑی ہوئی ہیں کچھ آنکھیں مگر ...

    مزید پڑھیے

    گہرائیوں میں ذہن کی گرداب سا رہا

    گہرائیوں میں ذہن کی گرداب سا رہا ساحل پہ بھی کھڑا ہوا غرقاب سا رہا بے نام سی اک آگ جلاتی رہی مجھے خوں کے بجائے جسم میں تیزاب سا رہا خالی وجود ہی لیے پھرتا رہا مگر کاندھوں پہ عمر بھر مرے اسباب سا رہا نغمے بکھیرتا رہا احساس تلخ بھی خامہ بھی میرے ہاتھ میں مضراب سا رہا اشکوں میں ...

    مزید پڑھیے

    میں ہرے موسموں میں جلتا رہا

    میں ہرے موسموں میں جلتا رہا خوشبوؤں سے دھواں نکلتا رہا آگ پر ہونٹ رکھ دیے تھے کبھی آخری سانس تک پگھلتا رہا میں اکیلا بھی کارواں کی طرح راستوں کے بغیر چلتا رہا حادثے مجھ کو پیش آتے رہے اور زمانے کا جی بہلتا رہا میری آواز منحرف نہ ہوئی وقت کا فیصلہ بدلتا رہا زندگی مجھ کو قتل ...

    مزید پڑھیے

    آدمی چونک چکا ہے مگر اٹھا تو نہیں

    آدمی چونک چکا ہے مگر اٹھا تو نہیں میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں یہ وہ دنیا تو نہیں روح کو درد ملا درد کو آنکھیں نہ ملیں تجھ کو محسوس کیا ہے تجھے دیکھا تو نہیں رنگ سی شکل ملی ہے تجھے خوشبو سا مزاج لالہ و گل کہیں تیرا ہی سراپا تو نہیں چہرہ دیکھوں تو خد و خال بدل جاتے ہی چھپ کے آئینے کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4