Muzaffar Warsi

مظفر وارثی

مظفر وارثی کی غزل

    سفر بھی دور کا ہے راہ آشنا بھی ہیں

    سفر بھی دور کا ہے راہ آشنا بھی ہیں چلا ادھر کو ہوں جس سمت کی ہوا بھی نہیں گزر رہا ہوں قدم رکھ کے اپنی آنکھوں پر گئے دنوں کی طرف مڑ کے دیکھتا بھی نہیں مرا وجود مری زندگی کی حد نہ سہی کبھی جو طے ہی نہ ہو میں وہ فاصلہ بھی نہیں فضا میں پھیل چلی میری بات کی خوشبو ابھی تو میں نے ہواؤں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی خواب کی طرح دیکھی

    زندگی خواب کی طرح دیکھی ناؤ گرداب کی طرح دیکھی میری عریانیوں کو ڈھانپ لیا گرد کمخواب کی طرح دیکھی عمر بھر چھیڑتی رہی ہم کو سانس مضراب کی طرح دیکھی راستے کی تھکن بھی کاندھے پر مال و اسباب کی طرح دیکھی عشق نے اس کو راکھ کر ڈالا برف تیزاب کی طرح دیکھی غرق ہو ہو گئے پسینے ...

    مزید پڑھیے

    آگ سے سیراب دشت زندگانی ہو گیا

    آگ سے سیراب دشت زندگانی ہو گیا شعلۂ دل آنکھ میں آیا تو پانی ہو گیا درد سینے میں اٹھا ماتھے پہ شکنیں پڑ گئیں رنگ چہرے کا صدائے بے زبانی ہو گیا تیری آنکھیں آئنہ ہاتھوں میں لے کر آ گئیں روبرو ہو کر ترے میں اپنا ثانی ہو گیا جب بھڑک اٹھا تھا تیرے قرب سے میرا بدن نام ان حساس لمحوں ...

    مزید پڑھیے

    دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے

    دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے ظرف مردہ ہو تو سچائی کہاں سے آئے پیار تعمیر ہو جب بغض کی بنیادوں پر ملتی نظروں میں شناسائی کہاں سے آئے گم ہیں رنگوں میں خد و خال بھی تصویروں کے پس پردہ کا تماشائی کہاں سے آئے میری ہر سوچ کے رستے میں کھڑا ہے کوئی آئینہ خانے میں تنہائی کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے

    چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے مجھ سے تصویر طلب کرتی ہیں میری آنکھیں میں نے کچھ رنگ چنے تھے ترے شیرازے سے صاف گوئی سے اب آئینہ بھی کتراتا ہے اب تو پہچانتا ہوں خود کو بھی اندازے سے میں تو مٹی کا بدن اوڑھ کے خود نکلا ہوں کیا ڈراتی ہیں ہوائیں ...

    مزید پڑھیے

    رات گئے یوں دل کو جانے سرد ہوائیں آتی ہیں

    رات گئے یوں دل کو جانے سرد ہوائیں آتی ہیں اک درویش کی قبر پہ جیسے رقاصائیں آتی ہیں سادہ لوحی کی نبٹے گی اس رنگین زمانے سے دو آنکھوں کا پیچھا کرنے لاکھ ادائیں آتی ہیں ڈھونڈھ رہی ہے میرے تن میں شاید میری روح مجھے اپنے سناٹوں سے کچھ مانوس صدائیں آتی ہیں میرا اک اک لمحہ کرب لیے ...

    مزید پڑھیے

    جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے

    جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے پھوڑ لوں سر نہ کہیں جسم کی دیواروں سے اپنے رستے ہوئے زخموں پہ چھڑک لیتا ہوں راکھ جھڑتی ہے جو احساس کے انگاروں سے گیت گاؤں تو لپک جاتے ہیں شعلے دل میں ساز چھیڑوں تو نکلتا ہے دھواں تاروں سے کاسۂ سر لیے پھرتی ہیں وفائیں اب بھی اب بھی تیشوں کی ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کے روپ میں خوشبو میں یا رنگوں میں آ

    روشنی کے روپ میں خوشبو میں یا رنگوں میں آ میں تجھے پہچان لوں گا کتنے ہی چہروں میں آ بند آنکھوں میں بھی کیا ہوگی تری بے پردگی چھین لے مجھ سے یہ نیندیں یا مرے خوابوں میں آ ناچ اٹھے رقاصۂ جاں دھڑکنوں کی تھاپ پر ساز ہاتھوں میں اٹھائے دل کے سناٹوں میں آ تو جو شرماتا ہے میرے سامنے ...

    مزید پڑھیے

    خود مری آنکھوں سے اوجھل میری ہستی ہو گئی

    خود مری آنکھوں سے اوجھل میری ہستی ہو گئی آئینہ تو صاف ہے تصویر دھندلی ہو گئی سانس لیتا ہوں تو چبھتی ہیں بدن میں ہڈیاں روح بھی شاید مری اب مجھ سے باغی ہو گئی فاش کر دیں میں نے خود اندر کی بے ترتیبیاں زندگی آرائشوں میں اور ننگی ہو گئی پیار کرتی ہیں مرے رستوں سے کیا کیا بندشیں توڑ ...

    مزید پڑھیے

    لیا جو اس کی نگاہوں نے جائزہ میرا

    لیا جو اس کی نگاہوں نے جائزہ میرا تو ٹوٹ ٹوٹ گیا خود سے رابطہ میرا سماعتوں میں یہ کیسی مٹھاس گھلتی رہی تمام عمر رہا تلخ ذائقہ میرا چٹخ گیا ہوں میں اپنے ہی ہاتھ سے گر کر مرے ہی عکس نے توڑا ہے آئنہ میرا کیا گیا تھا کبھی مجھ کو سنگسار جہاں وہیں لگایا گیا ہے مجسمہ میرا جبھی تو عمر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4