Muzaffar Warsi

مظفر وارثی

مظفر وارثی کے تمام مواد

38 غزل (Ghazal)

    سفر بھی دور کا ہے راہ آشنا بھی ہیں

    سفر بھی دور کا ہے راہ آشنا بھی ہیں چلا ادھر کو ہوں جس سمت کی ہوا بھی نہیں گزر رہا ہوں قدم رکھ کے اپنی آنکھوں پر گئے دنوں کی طرف مڑ کے دیکھتا بھی نہیں مرا وجود مری زندگی کی حد نہ سہی کبھی جو طے ہی نہ ہو میں وہ فاصلہ بھی نہیں فضا میں پھیل چلی میری بات کی خوشبو ابھی تو میں نے ہواؤں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی خواب کی طرح دیکھی

    زندگی خواب کی طرح دیکھی ناؤ گرداب کی طرح دیکھی میری عریانیوں کو ڈھانپ لیا گرد کمخواب کی طرح دیکھی عمر بھر چھیڑتی رہی ہم کو سانس مضراب کی طرح دیکھی راستے کی تھکن بھی کاندھے پر مال و اسباب کی طرح دیکھی عشق نے اس کو راکھ کر ڈالا برف تیزاب کی طرح دیکھی غرق ہو ہو گئے پسینے ...

    مزید پڑھیے

    آگ سے سیراب دشت زندگانی ہو گیا

    آگ سے سیراب دشت زندگانی ہو گیا شعلۂ دل آنکھ میں آیا تو پانی ہو گیا درد سینے میں اٹھا ماتھے پہ شکنیں پڑ گئیں رنگ چہرے کا صدائے بے زبانی ہو گیا تیری آنکھیں آئنہ ہاتھوں میں لے کر آ گئیں روبرو ہو کر ترے میں اپنا ثانی ہو گیا جب بھڑک اٹھا تھا تیرے قرب سے میرا بدن نام ان حساس لمحوں ...

    مزید پڑھیے

    دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے

    دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے ظرف مردہ ہو تو سچائی کہاں سے آئے پیار تعمیر ہو جب بغض کی بنیادوں پر ملتی نظروں میں شناسائی کہاں سے آئے گم ہیں رنگوں میں خد و خال بھی تصویروں کے پس پردہ کا تماشائی کہاں سے آئے میری ہر سوچ کے رستے میں کھڑا ہے کوئی آئینہ خانے میں تنہائی کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے

    چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے مجھ سے تصویر طلب کرتی ہیں میری آنکھیں میں نے کچھ رنگ چنے تھے ترے شیرازے سے صاف گوئی سے اب آئینہ بھی کتراتا ہے اب تو پہچانتا ہوں خود کو بھی اندازے سے میں تو مٹی کا بدن اوڑھ کے خود نکلا ہوں کیا ڈراتی ہیں ہوائیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں

    تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں تم اپنے پیچھے چھپے ہوئے ہو بغور دیکھوں تمہیں تو مجھ کو شرارتوں پر ابھارتی ہیں تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں لہو کو شعلہ بدست کر دیں یہ پتھروں کو بھی مست کر دیں حیات کی سوکھتی رتوں میں بہار کا بند و بست کر دیں کبھی گلابی کبھی سنہری سمندروں سے زیادہ ...

    مزید پڑھیے

    کربلا

    لبوں پہ الفاظ ہیں کہ پیاسوں کا قافلہ ہے نمی ہے یہ یا فرات آنکھوں سے بہہ رہی ہے حیات آنکھوں سے بہہ رہی ہے سپاہ فسق و فجور یلغار کر رہی ہے دلوں کو مسمار کر رہی ہے لہو لہو ہیں ہماری سوچیں برہنہ سر ہے حیا تمنائیں بال نوچیں وفا کے بازو کٹے ہوئے ہیں ہلاکتوں کے غبار سے زندگی کے میداں پٹے ...

    مزید پڑھیے

    بازار

    ایک مجبور کا تن بکتا ہے من بکتا ہے ان دکانوں میں شرافت کا چلن بکتا ہے سودا ہوتا ہے اندھیروں میں گناہوں کا یہاں زندگی نام ہے ہنستی ہوئی آہوں کا یہاں زندہ لاشوں کے لیے سرخ کفن بکتا ہے جھوٹی الفت کے اشاروں پہ وفا رقص کرے چند سکوں کے چھناکے پہ حیا رقص کرے حسن معصوم کا بے ساختہ پن بکتا ...

    مزید پڑھیے