Muzaffar Warsi

مظفر وارثی

مظفر وارثی کی غزل

    نقش دل پر کیسی کیسی صورتوں کا رہ گیا

    نقش دل پر کیسی کیسی صورتوں کا رہ گیا کتنی لہریں ہم سفر تھیں پھر بھی پیاسا رہ گیا کیسی کیسی خواہشیں مجھ سے جدا ہوتی گئیں کس قدر آباد تھا اور کتنا تنہا رہ گیا ڈھونڈنے نکلا تھا آوازوں کی بستی میں اسے سوچ کر ویراں گزر گاہوں پہ بیٹھا رہ گیا اس سے ملنا یاد ہے مل کر بچھڑنا یاد ہے کیا ...

    مزید پڑھیے

    پھر چاہے جتنی قامت لے کر آ جانا

    پھر چاہے جتنی قامت لے کر آ جانا پہلے اپنی ذات سے تم باہر آ جانا تنہا طے کر لوں گا سارے مشکل رستے شرط یہ ہے کہ تم دروازے پر آ جانا میں دیوار پہ رکھ آؤں گا دیپ جلا کر سایا بن کر تم دروازے پر آ جانا تم نے ہم کو ٹھکرایا یہ ظرف تمہارا جب تم کو ٹھکرا دیں لوگ ادھر آ جانا باتوں کا بھی زخم ...

    مزید پڑھیے

    زندگی جس پر ہنسے ایسی کوئی خواہش نہ کی

    زندگی جس پر ہنسے ایسی کوئی خواہش نہ کی گھاؤ سینے میں سجائے گھر کی آرائش نہ کی نکتہ چینی پر مری تم اتنے برگشتہ نہ ہو کہہ دیا جو کچھ بھی دل میں تھا مگر سازش نہ کی ایک سے حالات آئے ہیں نظر ہر دور میں رک گئے میرے قدم یا وقت نے گردش نہ کی جھک گیا قدموں پہ تیرے پھر بھی سر اونچا رہا آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا

    کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر ڈوب کر بھی ترے دریا سے میں پیاسا نکلا جب کبھی تجھ کو پکارا مری تنہائی نے بو اڑی پھول سے تصویر سے سایا نکلا کوئی ملتا ہے تو اب اپنا پتہ پوچھتا ہوں میں تری کھوج میں تجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں

    سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں تنہائی بتا کیسے تجھے گھر سے نکالوں اک موج بھی مل جائے اگر مجھ کو صلے میں گرتے ہوئے دریا کو سمندر سے نکالوں تیشے سے بجاتا پھروں میں بربط کہسار نغمے جو مرے دل میں ہیں پتھر سے نکالوں لو تیز نہیں کچھ مری آنکھوں ہی کی شاید مطلب یہی بے نوریٔ منظر ...

    مزید پڑھیے

    ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا

    ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا موجوں کے لئے کوئی کنارا نہیں ہوتا دل ٹوٹ بھی جائے تو محبت نہیں مٹتی اس راہ میں لٹ کر بھی خسارا نہیں ہوتا سرمایۂ شب ہوتے ہیں یوں تو سبھی تارے ہر تارہ مگر صبح کا تارا نہیں ہوتا اشکوں سے کہیں مٹتا ہے احساس تلون پانی میں جو گھل جائے وہ پارا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سخن وری ہمیں کب تجربے سے آئی ہے

    سخن وری ہمیں کب تجربے سے آئی ہے زباں میں چاشنی دل ٹوٹنے سے آئی ہے جدھر سے میرا بدن دھوپ چاٹ کر گزرا ہوائے سرد اسی راستے سے آئی ہے تڑپتا میں ہوں پسینہ ہے اس کے ماتھے پر شکست دل کی صدا آئنے سے آئی ہے کھلا ثبوت ہے یہ دشمنوں کے شب خوں کا کہ دھول ٹھہرے ہوئے قافلے سے آئی ہے سفر میں ...

    مزید پڑھیے

    اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے

    اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا لوگ بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے شدت کرب میں ہنسنا تو ہنر ہے میرا ہاتھ ہی سخت ہیں زنجیر کہاں ڈھیلی ہے گرد آنکھوں میں سہی داغ تو چہرے پہ نہیں لفظ دھندلے ہیں مگر فکر تو ...

    مزید پڑھیے

    زخم دل اور ہرا خون تمنا سے ہوا

    زخم دل اور ہرا خون تمنا سے ہوا تشنگی کا مری آغاز ہی دریا سے ہوا چبھ گئی حلق میں کانٹوں کی طرح پیاس مری دشت سیراب مرے آبلۂ پا سے ہوا دل زندہ کو چنا درد کی دیواروں میں روک لیتی مجھے اتنا بھی نہ دنیا سے ہوا سر میں سودا تھا مگر پاؤں میں زنجیر نہ تھی خاک اڑاتا رہا منسوب نہ صحرا سے ...

    مزید پڑھیے

    پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے

    پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے اونچا مری آواز کو دیوار نہ کر دے مجبور سخن کرتا ہے کیوں مجھ کو زمانہ لہجہ مرے جذبات کا اظہار نہ کر دے زنجیر سمجھ کر مجھے توڑا تو ہے تو نے اب تجھ کو پریشاں مری جھنکار نہ کر دے چلتا ہوں تو پڑتے ہیں قدم میرے ہوا پر ڈرتا ہوں ہوا چلنے سے انکار نہ کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4