روشنی کے روپ میں خوشبو میں یا رنگوں میں آ

روشنی کے روپ میں خوشبو میں یا رنگوں میں آ
میں تجھے پہچان لوں گا کتنے ہی چہروں میں آ


بند آنکھوں میں بھی کیا ہوگی تری بے پردگی
چھین لے مجھ سے یہ نیندیں یا مرے خوابوں میں آ


ناچ اٹھے رقاصۂ جاں دھڑکنوں کی تھاپ پر
ساز ہاتھوں میں اٹھائے دل کے سناٹوں میں آ


تو جو شرماتا ہے میرے سامنے آتے ہوئے
اوڑھ لے میرا تصور پھر مری باہوں میں آ


کر دیے ہیں زندگی نے مختلف حصے مرے
مجھ سے ملنا ہے اگر بٹ کر کئی سایوں میں آ


شہر میں بھی خاک اڑاتی پھر رہی ہیں وحشتیں
چھوڑ ویرانے مظفرؔ اب گلی کوچوں میں آ