Mustafa Rahi

مصطفیٰ راہی

مصطفیٰ راہی کی غزل

    سوچو تو بہت کچھ ہے مگر بات ذرا سی

    سوچو تو بہت کچھ ہے مگر بات ذرا سی یاد آتی ہے اب تک وہ ملاقات ذرا سی اے کاش کہ پاکیزگیٔ حسن کو ملتی وارفتگیٔ شورش جذبات ذرا سی اک عمر تری یاد میں کس طرح گزاریں وہ جن سے گزرتی نہیں اک رات ذرا سی اب بھی وہی عالم ہے وہی ہم ہیں وہی غم بدلی ہی نہیں صورت حالات ذرا سی اتنا بھی نہ دے طول ...

    مزید پڑھیے

    ہر سانس میں شامل رہتے ہیں ہر خواب سنوارا کرتے ہیں

    ہر سانس میں شامل رہتے ہیں ہر خواب سنوارا کرتے ہیں کیا کیا نہ ہماری خاطر وہ تکلیف گوارا کرتے ہیں سجدوں سے تلافی ہو کیوں کر حیران و پریشاں ہیں خود سر وہ بوجھ جو ہوتا ہے دل پر کس طرح اتارا کرتے ہیں ہر حال میں ہیں راضی بہ رضا ہم اہل یقیں ہم اہل وفا ہے کون ہمارا تیرے سوا تجھ ہی کو ...

    مزید پڑھیے

    نہ پہنچ سکا زمانہ مرے حال تک نہ پہنچے

    نہ پہنچ سکا زمانہ مرے حال تک نہ پہنچے میں وہاں ہوں جادہ پیما کہ خیال تک نہ پہنچے جنہیں تجھ کو دیکھنا ہو وہ مری نظر سے دیکھیں خد و خال میں جو الجھے وہ جمال تک نہ پہنچے مرا انتظار وعدہ ترا اعتبار فردا شب و روز رفتہ رفتہ مہ و سال تک نہ پہنچے جنہیں تیری آرزو تھی جنہیں تیری جستجو ...

    مزید پڑھیے

    ہم بھی اے دوست غم عشق کے مارے تھے کبھی

    ہم بھی اے دوست غم عشق کے مارے تھے کبھی ہم نے بھی چند حسیں لمحے گزارے تھے کبھی کون مانے گا کسے آج یقیں آئے گا ہم بھی دنیا کو دل و جان سے پیارے تھے کبھی اب یہ عالم ہے خلاؤں میں بھٹکتی ہے نظر ذرے ذرے میں نہاں چاند ستارے تھے کبھی اب وہی ہاتھ ہیں اور چاک گریباں ظالم جن سے دن رات ترے ...

    مزید پڑھیے

    دونوں طرف ہی برسوں یہ سلسلے رہے تھے

    دونوں طرف ہی برسوں یہ سلسلے رہے تھے کچھ وہ تھے بد گماں سے کچھ ہم کھنچے رہے تھے جن کو مرے جنوں سے کچھ واسطہ نہیں تھا مڑ مڑ کے میری جانب کیوں دیکھتے رہے تھے تجھ پر خدا کی رحمت اے دل ہے یہ حقیقت جب تک نہ تھا ترا غم ہم چین سے رہے تھے وہ گلشن محبت تاراج ہو گیا کیا کل تک جو خون دل سے ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2