سوچو تو بہت کچھ ہے مگر بات ذرا سی
سوچو تو بہت کچھ ہے مگر بات ذرا سی یاد آتی ہے اب تک وہ ملاقات ذرا سی اے کاش کہ پاکیزگیٔ حسن کو ملتی وارفتگیٔ شورش جذبات ذرا سی اک عمر تری یاد میں کس طرح گزاریں وہ جن سے گزرتی نہیں اک رات ذرا سی اب بھی وہی عالم ہے وہی ہم ہیں وہی غم بدلی ہی نہیں صورت حالات ذرا سی اتنا بھی نہ دے طول ...