خواہش وصل کو قلیل نہ کر
خواہش وصل کو قلیل نہ کر شب ہجراں کو اب طویل نہ کر میں نے تجھ کو رکھا سر آنکھوں پر زندگی تو مجھے ذلیل نہ کر جس کا جی چاہے پی لے جی بھر کے اتنی سستی کبھی سبیل نہ کر اپنے نام و نشاں مٹاتا چل نقش پا کو تو سنگ میل نہ کر نیند کی وادیوں میں رات گزار عرصۂ خواب کو قلیل نہ کر تیرا محتاج ...