قوالی

سبق بس کھیلنے کھانے کا جس کو یاد ہوتا ہے
بڑا ہو کر وہ لڑکا ایک دن استاد ہوتا ہے
نہ آئے ماسٹر جس دن پڑھانے میرے درجے میں
ذرا سی دیر کو اس دن میرا دل شاد ہوتا ہے
جو مولیٰ بخش سے وہ پیٹتے ہیں مجھ کو مکتب میں
کوئی سمجھائے ان کو وقت بھی برباد ہوتا ہے
بنایا جاتا ہوں مرغا میں جس دن اپنے مکتب میں
تو اس دن درد سے یہ دل بہت ناشاد ہوتا ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ مقصد کیا ہے پڑھنے کا
مزہ بھی کچھ نہیں ہے وقت بھی برباد ہوتا ہے
خدا کے فضل سے جس دن بخار آتا ہے ٹیچر کو
تو اس دن اپنا مکتب بھی بہت آباد ہوتا ہے
جو حلوہ رکھ کے الماری میں آپی بند کرتی ہیں
کھلاتی ہیں نہ کھاتی ہیں پڑا برباد ہوتا ہے
اگر ہوں مہرباں ٹیچر تو تم دیکھو گے اے نوریؔ
سبق جس کو نہیں ہو یاد وہ بھی شاد ہوتا ہے