وردان

ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر قدآدم آئینے پر پڑی۔ آئینے کو شاید جان بوجھ کر اس زاویے سے رکھا گیا تھاکہ ہر آنے والے کو اپنا آپا نظر آجائے۔ اس نے لمحہ بھر کو آئینے میں دیکھا پھر ٹیبل پر رکھے ہوئے پیتل کے گلدان کو اٹھاکر اسے پوری طاقت سے آئینے پر دے مارا۔ ’’چھناک‘‘ کی زوردار آواز کے ساتھ آئینے کی کرچیاں بکھرگئیں۔ وہ الٹے پاؤں لوٹی اور تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
اس کی اس خلاف توقع حرکت سے دوسرے مہمان ششدررہ گئے۔اس سے قبل کہ کوئی کچھ دریافت کرتا، آشا اندر سے باہر دوڑتی ہوئی آئی اور اسے جاتے ہوئے دیکھ کر اس کی جانب تیزی سے لپکی:
’’چندا ۔۔۔چندا۔۔۔! رک جاؤ تمہیں میری قسم‘‘
لیکن چندانے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ اس کے ذہن میں تو بگولے چل رہے تھے وہ باربار ایک ہی بات سوچے جارہی تھی۔
’’آشانے آخر کس جنم کا انتقام لیا ہے؟ اس نے اچانک مجھے آئینے کے روبرو کیوں کردیا؟
چندا آشاکی بہت پیاری سہیلی تھی۔ چندا کہیں آتی جاتی نہ تھی، لیکن آج آشا کی خوشامد کے سامنے وہ پگھل گئی تھی۔
’’چندا ڈیئر۔ آج میری خاطر ہی سہی سہ پہر تک ضرور آجانا کچھ نہیں تو ہاتھ ہی بٹا دینا۔ ہم نے بڑے ارمانوں سے اپنا فلیٹ بنوایا ہے۔ آج اس نئے گھر میں شفٹ کررہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی تقریب ہے، سب اپنے ہی لوگ ہوں گے۔‘‘
حسب وعدہ وہ آتو گئی تھی، لیکن اسے کیا معلوم تھاکہ آشا اس کے ساتھ ایسا بھیانک مذاق کرے گی اور اس طرح اسے آئینے کے روبرو کردے گی۔
اسے صرف آئینے سے نہیں بلکہ اپنا نام سے بھی چڑتھی۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ اس کے والدین نے اس کا نام چندا کیوں رکھا؟ کیادنیا میں ان کے لئے کوئی دوسرا نام نہیں تھا؟
وہ دو بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے چھوٹی تھی۔ بڑی بہن کی شادی ہوچکی تھی اور وہ بس اپنے بال بچوں کی ہوکر رہ گئی تھی۔ ہاں خط و کتابت کے ذریعے اب بھی رشتہ قائم تھا۔ دوچار محبت بھرے خطوط سال چھ ماہ میں ضرور آجاتے تھے۔ ماں بیچاری تو پانچ سال کی عمر میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ بڑی بہن سے ملناہوتا نہ تھا، لہٰذا تنہائی کا کرب جھیلنا اس کی قسمت میں آیاتھا۔ بوڑھا باپ اس کی قسمت پر رونے کے سواکیا کرتا۔ دن رات گھر میں پڑا کھانستا رہتا۔ ایک وہی تھی جو باپ کی دیکھ بھال کرتی۔ بھائی کا نام سریندرسنگھ تھا۔ اس پر کسی کا زور نہ چلتا تھا۔ اکلوتا ہونے کے باعث باپ نے کچھ زیادہ ہی آزادی دے دی تھی اور اب نتیجہ سامنے تھا۔ بی۔اے میں لگاتار چارسال فیل ہونے کے بعد اس نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا اور موجودہ نظام تعلیم کو گالیاں دیتا تھا۔ اسے اتنی فرصت کہاں تھی کہ اتنا سوچے کہ اس چھت کے نیچے ایک بوڑھے باپ کے علاوہ ایک دکھیا بہن بھی رہتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بچپن سے ہی کسی نے چندا کا خیال نہ رکھا تھا۔ ماں کا لاڈپیار اسے ضرور ملاتھا، لیکن ماں اسے پانچ برس کا چھوڑ کر چل بسی تھی۔ بھائی بہن نے اسے کبھی قابل اعتنا نہ سمجھا، لیکن اس میں اس کا قصور کیاتھا؟یہ تو اوپر والا جانے جس نے بدصورتی کی تمام حدیں اسی پر تمام کردی تھیں۔
کالی ہونا کوئی بری بات نہیں، لیکن اس کے جسم میں گوشت نام کی کوئی شے ہی نہ تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہڈی پر چمڑا مڑھ دیاگیا ہو۔ اس پر طرہ یہ کہ ہونٹ موٹے اور بھدے تھے۔ اوپر کے دو دانت بڑے اور باہر نکلے ہوئے تھے، لہٰذا اس کا منھ ہمیشہ تھوڑ سا کھلا رہتا۔ اس کی ناک بھی ذرا پھولی ہوئی تھی۔ ہاں اس کے بال ریشم کی طرح ملایم اور بے حد لمبے تھے۔ آنکھیں بڑی بڑی سیاہ بھونرے کی طرح تھیں اور اس کے کولہے کی ہڈی بھی خاصی بھاری تھی۔ پرانی سنسکرت شاعری کی معشوقاؤں کی طرح اس کی کمر چلنے میں بل کھاجاتی اور چال نشیلی ہوجاتی، لیکن کالارنگ، حددرجہ دبلاپا اور بڑے دانت؟ توبہ توبہ ۔
دس پندرہ سال کی عمر تک تو اسے اس بات کا احساس بھی نہ تھا کہ وہ بدصورت ہے، لیکن سولہ سال کی عمر میں اس پر چیچک کا حملہ ہوا۔ بچپن کا ٹیکہ شاید مؤثر نہ ہوا تھا۔ وہ اچھی تو ہوگئی تھی، لیکن اس کے گڑھے نمارخساروں میں چیچک کے جابہ جا گہرے داغ پڑگئے۔ بائیں آنکھ جاتی رہی اور آنکھ کا اجلا حصہ اند سے پھول کر باہر نکل آیا۔ بیماری سے اچھی ہوکر جب اس نے پہلی بار آئینہ دیکھا تو رورو کر اس نے اپنے آپ کو ہلکان کر ڈالا۔ وہ چیخ چیخ کر کہتی رہی:
’’ہے بھگوان! تم نے مجھے زندہ کیوں رکھا؟ مجھے اٹھا لو۔۔۔ اب بھی اٹھا لو۔ ہائے میری ماں تو مجھے اپنے ساتھ کیوں نہ لیتی گئی؟‘‘
اس دن اس نے پہلا آئینہ توڑا تھا۔ آئینوں کے ساتھ وہ بھی کرچیوں میں بکھرتی رہی۔ تب سے آج تک اس نے آئینہ نہیں دیکھا تھا، لیکن آج آشانے اسے آئینے کے سامنے لاکر اسے اندر تک چور کرکے رکھ دیا تھا۔ پیچھے سے کسی کار کے ہارن نے اسے چونکا دیا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ سڑک کے بیچوں بیچ چل رہی ہے اس نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔ وہ بے خیالی میں بازار کی طرف نکل آئی تھی۔ بازار سے وہ بہت گھبراتی تھی۔ ہر کوئی اسے یوں دیکھتا جیسے وہ کوئی عجوبہ اشتہار ہو۔ عقب سے دیکھنے والے کولھے پر اس کے لمبے چمکیلے بالوں اور نشیلی چال سے دھوکا کھا جاتے اور دیرتک اس کا پیچھا کرتے، لیکن جب بعد میں اس کے چہرے پر نظر پڑتی تو گھبرا کر نظر پھیر لیتے، پھر اس کا جی چاہتا کہ دیکھنے والے کی آنکھیں پھوڑ دے اور آنکھ پھوڑنے سے پہلے زبردستی اس کا منھ اپنی طرف کرکے کہے:
’’لودیکھو اور دیکھو، جی بھرکے دیکھو پھر کچھ نہ دیکھ پاؤ گے‘‘ لیکن بے بسی کا کڑواگھونٹ اپنے حلق میں اتارنے کے سوا وہ کرہی کیا سکتی تھی وہ اندر ہی اندر کھولتی رہتی اور اس کا تعاقب کرنے والا لونڈا اپنی راہ لیتا۔
زندگی کے ستائیس برس گزارنے کے بعد بھی وہ کنواری تھی۔ وہ نوجوانی اور بلوغ کے عالم سے بے خبر نہ تھی۔ پیٹ کی آگ تو بجھ جاتی تھی، لیکن جسم کی آگ کے لئے برف کا کوئی ٹکڑا اسے نصیب نہیں ہوسکا۔ اس کی قسمت میں وہ سنگ دربھی نہ تھا جہاں سر پھوڑا جاسکے۔ آج تک اسے کوئی ایسا مرد بھی نہ ملا جو ہنس بول کر دو گھڑی اس کے ساتھ گزار لیتا۔
اس کی شادی کا ارمان اپنے دل میں لئے اس کابوڑھا باپ آخر سانسوں کے جھولے پر عقبیٰ سدھارا۔ بیٹی کی ڈولی اٹھنے سے پہلے اس کی ارتھی اٹھ گئی۔ باپ کو مرے دو سال ہوچکے تھے۔ سریندر سنگھ کو اتنی فرصت بھی نہ تھی کہ وہ سوچے کہ اس گھر میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا وجود بھی رہتاہے۔ وہ اپنے بڑے بھائی سے شدید نفرت کرتی تھی حتیٰ کہ اس نے اسے راکھی باندھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اسے اپنے بھائی سے یہ توقع ہی نہ تھی کہ وہ راکھی کی لاج رکھ سکے گا۔ وہ رات گئے نشے میں چور گھر آتا، پھر کب نکل جاتا اور کہاں جاتا اس کا اسے علم بھی نہ ہوپاتا۔ وہ کیا کرتاہے، کہاں کھاتا ہے، پیسے اس کے پاس کہاں سے آتے ہیں، چندا کوان باتوں کی خبر تھی نہ پروا تھی۔
چنداکو معلوم تھاکہ زندگی بھر اسے کنوارپن کی صلیب پر سسک سسک کر مرنا ہے۔ کبھی کبھی تو اس خیال سے اسے اتنی وحشت ہوتی کہ اس کا بدن اکڑ جاتا۔ وہ بالکل بے حس و حرکت بیٹھی کی بیٹھی رہ جاتی۔ ایسا لگتا جسم سے جان ہی نکل گئی ہو۔ برسات کی کالی راتیں اس کے لئے بہت جان لیوا ہوتیں۔ کبھی کبھی تو وہ رم جھم بارش میں گھنٹوں کھڑی بھیگتی رہتی۔ وہ اوپر سے جتنی گیلی ہوتی، اندر سے اتنی ہی سلگ رہی ہوتی۔ راتوں میں وہ اکثر شاور کے نیچے کھڑی ہوجاتی کہ کچھ ٹھنڈک پڑے۔ باپ اکثر کہتا کہ بیٹی اتنا زیادہ کیوں نہاتی ہو۔ برسات ہوتو، جاڑاہوتو تمہارا نہانا کم ہی نہیں ہوتا اس طرح تو سردی لگ جائے گی نمونیاہوجائے گا۔ نہانا ہی ہے تو پانی گرم کرلے بیٹی۔
وہ باپ کو کیسے سمجھاتی کہ اس کے اندر کی آگ برفیلے پانی سے بھی سرد نہیں ہوسکتی۔ اسے نمونیا ہی سہی ہو تو جائے، لیکن کاوِکاوِسخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ۔
ایک دن بازار میں اس نے ایک عجیب واقعہ دیکھا۔ ایک برقعہ پوش خاتون کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا بہت دیر سے لگا ہوا تھا۔ برقعہ پوش کا صرف ہاتھ نظر آرہاتھا۔ ہاتھ کی خوبصورتی پر فریفتہ وہ لڑکا اس پر مرمٹا تھا اور بے حیائی سے عورت کا پیچھا کررہا تھا۔
اچانک وہ پلٹی اور اس نے اپنی نقاب الٹ کر لڑکے سے کہا:
’’حرام زادے، لے جی بھرکے دیکھ میں تمہاری ماں کی برابرہوں۔‘‘
خاتون کی اس پھٹکار پر لڑکا اس طرح بھاگا، جیسے بندوق کی گولی سے بچ کر بھاگ رہا ہو۔ وہ خاتون تو بکتی جھکتی چلی گئی، لیکن چندا کو ایک آئیڈیا دے گئی۔ اسی وقت چندا نے ایک خوبصورت ریشمی سیاہ برقع خریدا۔ اگلے دن نہادھوکر برقع اوڑھ کر وہ بازار کو چلی۔ اس کی چال یونہی دلکشی تھی اور آج تو اس نے کچھ خاص اہتمام بھی کیا تھا۔ لونڈے دھوکا کھاکر اس کی جانب لپکنے لگے، لیکن اس کا مقصد تو اپنی بدصورتی کی بجائے اپنی شناخت چھپانا تھا۔ وہ جان بوجھ کر بھیڑ میں گھس جاتی۔ لونڈے بلکہ بعض اوقات عمر رسیدہ لوگ للچائی نگاہوں سے دوتک اس کا تعاقب کرتے یا پیچھے پیچھے چلتے کبھی کبھار وہ بھیڑ کا فائدہ بھی اٹھالیتے اور وہ جان بوجھ کر انجان بن جاتی۔ اپنے آپ میں گم ہونے کا یہ سلسلہ کچھ دن برقرار رہا، لیکن پھر وہ اس کھیل سے اکتا گئی کہ اس سے آتش شوق اور بھڑک جاتاتھا۔ سمندرکو پی جانے والی پیاس کے سامنے قطرے کی بساط ہی کیا؟
راتوں کی نیند اڑادینے والے اندر کے جلن کا علاج بھی کیا؟ وہ ایک ایسے صحرا میں بھٹک رہی تھی جہاں ہرجگہ سراب کے سائے لہراتے تھے۔ اس کا کوئی دوست نہ تھا،کوئی سہیلی نہ تھی۔ باپ نے اس کے نام مکان اور کچھ رقم چھوڑی تھی۔ گزارہ توہوجاتا تھا، لیکن انسان کو گزارے کے لئے کچھ سہارا بھی تو چاہئے۔ لے دے کر ایک آشاتھی جو اس کی غم گسار بھی تھی،رازدار بھی، لیکن وہ رشتہ بھی آج آئینے کی کرچیوں کی طرح پارہ پارہ ہوگیاتھا۔
چلتے چلتے اس نے ٹھوکر کھائی اور گرتے گرتے بچی۔ پیچھے سے کسی کی آواز آئی: ’’ہائے جان ذرا سنبھل کے‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا اس کے مڑتے ہی لونڈے کی ہنسی کا فیوز اڑ گیا۔ چندا نے نفرت سے اس کی جانب منھ کرکے تھوکا اور تیزتیز آگے بڑھ گئی۔
وہ بھٹکتے بھٹکتے پارک تک آگئی تھی۔ بھیڑبہت تھی، لیکن پارک شاید بند ہونے والا تھا کیونکہ باہر نکلنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہ اندر داخل ہوگئی اور دور کنارے ایک خالی بنچ پر اپنی سانسیں درست کرنے لگی۔ آنکھیں بند کرکے اس نے اپنے ماضی کا جائزہ لیا جیسے کوئی خاموش فلم دیکھ رہی ہو۔ اس طرح فلم دیکھتے دیکھتے وہ چپکے سے اپنی روح میں اتر گئی۔ روح میں اترنے کے لئے کسی زینے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف احساس کی زنجیر ہی کافی ہوتی ہے یہ زنجیر جتنی لمبی ہوگی روح کا سفر بھی اتنا ہی طویل ہوگا۔
وہ زنجیر تھامے اندر بہت اندر اترتی چلی گئی۔ اندر کا سفر جاری تھا وہ اپنا آپ پانے کے لئے گم ہوتی جارہی تھی کہ اچانک عقب سے کسی نے اسے دبوچ لیا۔ ڈرسے اس کی چیخ نکل گئی۔ ایک بالوں بھرے ہاتھ نے سختی سے اس کا منھ بھینچ دیا اس نے کن انکھیوں سے دیکھا کوئی لمبا تڑنگا مرد تھا۔ اچانک اس کے احساس نے پلٹا کھایا۔
’’کوئی مرد اسے اٹھاکر اس طرح اپنی بانہوں میں دبوچ بھی سکتاہے؟‘‘
’’نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے؟ ضرور یہ کوئی سپنا ہوگا۔‘‘
اس کی آنکھیں بندہوگئیں اس پر ایک عجیب سی بے ہوشی کی کیفیت طاری ہونے لگی، پھر کوئی اس کے کپڑے، اس کا بدن، اس کی روح سب کچھ نوچنے بھبھوڑنے لگا۔ اس جانور نما شخص نے اس پر حاوی ہوکر اسے روئی کے گالے کی طرح دھن کر رکھ دیا۔ نیم غنودگی کے عالم میں اسے محسوس ہوا جیسے آج وہ اپنے آپ پر منکشف ہوتی جارہی ہو۔
’’توسریندرسنگھ کی بہن ہے ناکتیا کہیں کی؟‘‘
بھائی کا نام سن کر اس کا ذہن تلخیوں سے بھرگیا۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ مڑی تڑی گٹھری کی طرح گھاس پر پڑی تھی اس کا سارا وجود پارہ پارہ، لیکن ساکن تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ایک رات جب وہ گھر میں اکیلی تھی تو یہی شخص اس کے بھائی کو گالیاں دیتا ہوا تلاش کرنے آیا تھا اور اس کے ’’بھیا گھر پر نہیں ہیں‘‘ کہنے پر اس نے یہی سوال پوچھا تھا۔
’’توسریندرسنگھ کی بہن ہے نا۔ میں تم دونوں حرامیوں کو خوب پہچانتا ہوں۔‘‘
وہ دھنی ہوئی روئی کی طرح پڑی ہوئی تھی۔ شرم اور زیاں کا احساس اسے دبائے جارہاتھا، لیکن زندگی میں کہیں کوئی چیز اور بھی تھی۔ وہ کچھ نہ بولی۔ اس مردنے اس کی جانب حقارت سے تھوکتے ہوئے کہا:
’’آج میں نے اپنی بہن کا انتقام لے لیا ہے جو تمہارے حرامی بھائی کی ہوس کا شکار ہوکر کنویں میں کود پڑی تھی۔ دیکھتا ہوں، تو کس کنویں میں گرتی ہے۔ کس آگ میں جلتی ہے۔‘‘
یہ سن کر وہ چونکی اور اس کا کمینہ بھائی ایک ہی پل میں اس کی نظروں میں مہان ہوگیا، پھر وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولی:
’’میرا بھائی بہت اچھا آدمی ہے اس نے جو بھی کیا اچھا ہی کیا۔‘‘