Mushaf Iqbal Tausifi

مصحف اقبال توصیفی

نئی غزل کے ممتاز شاعر

Prominent poet of New Ghazal trend

مصحف اقبال توصیفی کی غزل

    کبھی ہنس رہا تھا کبھی گا رہا تھا

    کبھی ہنس رہا تھا کبھی گا رہا تھا مرا حوصلہ تھا جیے جا رہا تھا یہ اچھا ہوا کوئی ملنے نہ آیا میں خود اپنے سائے سے کترا رہا تھا وہ پہلی کرن سی مرے آنسوؤں کی مجھے اپنا اک خواب یاد آ رہا تھا کئی عقل کی گتھیاں تھیں مرا دل سمجھتا نہ تھا مجھ کو سمجھا رہا تھا اسی پر نئے پھول بھی کھل رہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسا کھیل ہے اب اس سے بات بھی کر لوں

    یہ کیسا کھیل ہے اب اس سے بات بھی کر لوں کہے تو جیت کو اپنی میں مات بھی کر لوں یہ اختیار مرا تجھ کو جس طرح سوچوں سحر کو یاد سے اور دل سے گھات بھی کر لوں یہ دکھ بھی ساتھ چلے گا کہ اب بچھڑنا ہے اگر سفر میں اسے اپنے ساتھ بھی کر لوں کسی کا نام نہ لوں اور غزل کے پردے میں بیان اس کی میں ...

    مزید پڑھیے

    اک خواب تھی زندگی ہماری

    اک خواب تھی زندگی ہماری پھر آنکھ نہیں کھلی ہماری دنیا سے بھی پھر نہیں ملے ہم وہ بھی تو کبھی نہ تھی ہماری دن ڈھل گیا خواب دیکھنے میں کٹ جائے گی رات بھی ہماری پلکوں پہ یہ پھول آنسوؤں کے صحرا کی یہ ریت بھی ہماری اک دھیان کی لہر نے ڈبویا اک یاد نہ ہو سکی ہماری ٹاپوں کی صدا سی اس ...

    مزید پڑھیے

    نشتروں پر جسم سارا رکھ دیا

    نشتروں پر جسم سارا رکھ دیا زخم پر لفظوں کا پھاہا رکھ دیا رات کی بھیگی ہوئی دیوار پر میں نے اک روشن ستارہ رکھ دیا رات تم نے روشنی کے کھیل میں کیوں مرے سائے پہ سایہ رکھ دیا میں نے وہ پتوار بھی لوٹا دیے بیچ دریا کے کنارا رکھ دیا پھول تھے ان میں مگر خوشبو نہ تھی لفظ کو سونگھا ...

    مزید پڑھیے

    اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم

    اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم جس سے ملنا چاہتے ہیں اس سے کتراتے ہیں ہم لوگ تجھ کو بے وفا کہتے ہیں ان سے کیا گلہ رنگ دنیا دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں ہم یہ نمی آنکھوں کی سینے کی جلن جاتی نہیں تیری محفل میں بھی تنہائی سے گھبراتے ہیں ہم مڑ کے دیکھا تھا تو سارا شہر پتھر ہو ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہی آوارگی سے ڈر گئے

    اپنی ہی آوارگی سے ڈر گئے بس میں بیٹھے اور اپنے گھر گئے ساری بستی رات بھر سوئی نہیں آسماں کی سمت کچھ پتھر گئے سب تماشا ساری دنیا دیکھ لی اس گلی سے ہو کے اپنے گھر گئے بیچ میں جب آ گئی دیوار جسم اپنے سائے سے بھی ہم بچ کر گئے اور کیا لو گے ہمارا امتحاں زندگی دی تھی سو وہ بھی کر ...

    مزید پڑھیے

    یاد پھر آئی تری موسم سلونا ہو گیا

    یاد پھر آئی تری موسم سلونا ہو گیا شغل سا آنکھوں کا بس دامن بھگونا ہو گیا اب کسی سے کیا کہیں ہم کس لئے برباد ہیں اب کسی کی کیوں سنیں جو کچھ تھا ہونا ہو گیا گیت بابل کے سنانے تیری سکھیاں آ گئیں میں ترے بچپن کا اک ٹوٹا کھلونا ہو گیا میری پلکوں پر مرے خوابوں کی کرچیں رہ گئیں نیند ...

    مزید پڑھیے

    ہم ترا سایہ تھے سایہ ہو کے

    ہم ترا سایہ تھے سایہ ہو کے پھر چلے آئے ہیں تجھ کو کھو کے درد کی فصل ہمیں یاد رہی بیج ہم بھول گئے تھے بو کے آنکھ نے دیکھا مگر کیا دیکھا عقل نے اور بھی کھائے دھوکے ایک طوفان کی آمد آمد ایک آنسو کوئی روکے روکے سب کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں تو ہم کوئی اتنا نہیں اس کو ٹوکے تیرا عاشق ...

    مزید پڑھیے

    چاند نے اپنا دیپ جلایا شام بجھی ویرانے میں

    چاند نے اپنا دیپ جلایا شام بجھی ویرانے میں اس کی بستی دور ہے شاید دیر ہے اس کے آنے میں کیا پتھر کی بھاری سل ہے ایک اک لمحہ ماضی کا دیکھو دب کر رہ جاؤ گے اتنا بوجھ اٹھانے میں اس کو نہیں دیکھا ہے جس نے مجھ کو بھلا کیا سمجھے گا ان آنکھوں سے گزرنا ہوگا میرے دل تک آنے میں اپنی ذات سے ...

    مزید پڑھیے

    کس دشت طلب میں کھو گئے ہم

    کس دشت طلب میں کھو گئے ہم سایہ جو ملا تو سو گئے ہم لو آج بھلا دیا تمہیں بھی لو آج تمہارے ہو گئے ہم اے شمع فراق بجھ چکی شب اے ساعت وصل سو گئے ہم پھر اپنا نشاں کہیں نہ پایا اٹھ کر ترے ساتھ تو گئے ہم یوں صبح کے بھولے اپنے گھر کو لوٹے ہیں کہ اور کھو گئے ہم جب آنکھ کھلی تو ہم نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3