کبھی ہنس رہا تھا کبھی گا رہا تھا

کبھی ہنس رہا تھا کبھی گا رہا تھا
مرا حوصلہ تھا جیے جا رہا تھا


یہ اچھا ہوا کوئی ملنے نہ آیا
میں خود اپنے سائے سے کترا رہا تھا


وہ پہلی کرن سی مرے آنسوؤں کی
مجھے اپنا اک خواب یاد آ رہا تھا


کئی عقل کی گتھیاں تھیں مرا دل
سمجھتا نہ تھا مجھ کو سمجھا رہا تھا


اسی پر نئے پھول بھی کھل رہے تھے
وہی شاخ میں جس پہ مرجھا رہا تھا


وہ مجھ سے ملا شام کے وقت جب میں
پرندوں کے ہم راہ گھر جا رہا تھا