کس دشت طلب میں کھو گئے ہم

کس دشت طلب میں کھو گئے ہم
سایہ جو ملا تو سو گئے ہم


لو آج بھلا دیا تمہیں بھی
لو آج تمہارے ہو گئے ہم


اے شمع فراق بجھ چکی شب
اے ساعت وصل سو گئے ہم


پھر اپنا نشاں کہیں نہ پایا
اٹھ کر ترے ساتھ تو گئے ہم


یوں صبح کے بھولے اپنے گھر کو
لوٹے ہیں کہ اور کھو گئے ہم


جب آنکھ کھلی تو ہم نہیں تھے
جاگے ہیں کہ خواب ہو گئے ہم


اشکوں نے عجیب گل کھلائے
کیا نقش و نگار بو گئے ہم


کھویا ہے اسے تو خود کو پایا
پایا ہے اسے تو کھو گئے ہم