نام بھی اچھا سا تھا چہرہ بھی تھا مہتاب سا
نام بھی اچھا سا تھا چہرہ بھی تھا مہتاب سا
ہاں ہمیں کچھ یاد ہوتا ہے مگر کچھ خواب سا
یہ مرے سینے میں دل رکھا ہے یا کوئی چکور
چاندنی راتوں میں کیوں رہتا ہوں میں بیتاب سا
ہو گیا کس ذکر سے یہ مرتعش سارا وجود
تار ساز دل پہ آخر کیا لگا مضراب سا
کچھ کتابیں اور قلم کاغذ کے کچھ پرزوں پہ شعر
میرے گھر میں ہے یہی بس قیمتی اسباب سا
پاؤں رکھتے ہی بہا کر لے گیا سیلاب میں
دور سے لگتا تھا جو دریا ہمیں پایاب سا
اس طرح کے کچھ حواری ساتھ عیسیٰ کے بھی تھے
جس طرح ہے گرد میرے حلقۂ احباب سا
آسماں پر آنکھ سورج کی نہ بجھ جائے کہیں
ہے زمیں پر روشنی کا اس قدر سیلاب سا