سارے ظالم اگر صف بہ صف ہو گئے

سارے ظالم اگر صف بہ صف ہو گئے
ہم تہی دست بھی سر بکف ہو گئے


وہ جو کچھ بھی نہ تھے اب ہیں سب کچھ وہی
در بدر سارے اہل شرف ہو گئے


کوزہ گر کا کمال ہنر کیا ہوا
جب نہ کوزہ بنے ہم خذف ہو گئے


یہ تری یاد کے اشک تھے اس لیے
آنکھ میں مثل در صدف ہو گئے


منسلک اک خوشی سے ہوئی ہر خوشی
سارے غم ایک ہی غم میں لف ہو گئے


بات اس سے سر راہ کیا ہم نے کی
ناوک دوستاں کا ہدف ہو گئے


اب ہماری صفائی میں آئے ہو تم
جب کہ بد نام ہم ہر طرف ہو گئے


نشر ہوتی رہیں ان کی بس خوبیاں
جملے تنقید کے سب حذف ہو گئے


وہ طلب کر رہے ہیں وفاداریاں
منحرف جو اٹھا کر حلف ہو گئے


مجرموں کو مراعات اتنی ملیں
کہ جرائم بھی شغل و شغف ہو گئے


تف یہ اولاد بے حس کہ جس کے سبب
رائیگاں کار ہائے سلف ہو گئے