ساقی گری کا فرض ادا کر دیا گیا

ساقی گری کا فرض ادا کر دیا گیا
پانی کا گھونٹ زہر ملا کر دیا گیا


بس تجربوں کی نذر ہوئے اپنے سارے خواب
کیا ہم نے کرنا چاہا تھا کیا کر دیا گیا


وابستگی کسی کی تو اس غم کدے سے ہے
ورنہ یہاں پہ کون جلا کر دیا گیا


اب قید ختم ہونے کی وہ کیا خوشی منائے
پر قینچ کر کے جس کو رہا کر دیا گیا


خوئے ستم تمہیں دی ہمیں خوئے ضبط غم
سب کو بقدر ظرف عطا کر دیا گیا


اک ذکر ایسا چھیڑا کسی غم گسار نے
بھرنے کو تھا جو زخم ہرا کر دیا گیا