موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے

موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے
پاؤں ڈالا تو یہ دریا ملا پایاب مجھے


بت تو دنیا نے بہ ہر گام تراشے لیکن
سر جھکانے کے نہ آئے کبھی آداب مجھے


شدت کرب سے کمھلا گئے چہرے کے خطوط
اب نہ پہچان سکیں گے مرے احباب مجھے


ایک سایہ کہ مجھے چین سے سونے بھی نہ دے
ایک آواز کہ کرتی رہے بیتاب مجھے


جس کی خواہش میں کسی بات کی خواہش نہ رہے
ایسی جنت کے دکھائے نہ کوئی خواب مجھے


وسعتیں دامن صحرا کو بھی بخشی ہوتیں
تو نے بخشی تھی اگر فطرت سیماب مجھے