نہر جس لشکر کی نگرانی میں تب تھی اب بھی ہے

نہر جس لشکر کی نگرانی میں تب تھی اب بھی ہے
خیمے والوں کی جو بستی تشنہ لب تھی اب بھی ہے


اڑ رہے ہیں وقت کی رفتار سے مغرب کی سمت
وقت آغاز سفر جو تیرہ شب تھی اب بھی ہے


وقت جیسے ایک ہی ساعت پہ آ کے رک گیا
پہلے جس شدت سے جو دل میں طلب تھی اب بھی ہے


ہم شکایت آنکھ کی پلکوں سے کرتے کس طرح
داستان ظلم ورنہ یاد سب تھی اب بھی ہے


حسن میں فطری حجابانہ روش اب ہو نہ ہو
عشق کے مسلک میں جو حد ادب تھی اب بھی ہے


روز و شب بدلیں گے اپنے کس طرح آئے یقیں
صورت حالات جو پہلے عجب تھی اب بھی ہے


ہیں بقا کے وسوسے میں ابتدا سے مبتلا
دل میں اک تشویش سی جو بے سبب تھی اب بھی ہے


نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت
منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے