ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی بر جستہ کہہ دیا
خورشید صبح نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
میں چپ ہوا تو زخم مرے بولنے لگے
سب کچھ زبان حال سے لب بستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھہرا ذرا تو آپ نے پابستہ کہہ دیا
دیکھی گئی نہ آپ کی اندوہ خاطری
کانٹے ملے تو ان کو بھی گلدستہ کہہ دیا
دیکھا تو ایک آگ کا دریا تھا موجزن
اس درد ناسزا نے جسے رستہ کہہ دیا
مجرم تھے وہ جو کر نہ سکے ارتکاب جرم
ملزم ہوں میں جو راز تھا سربستہ کہہ دیا
نا آشنائے سوز دروں کیا سمجھ سکیں
کیوں خود کو ہم نے آج جگر خستہ کہہ دیا