Muntazir Qaimi

منتظر قائمی

منتظر قائمی کی غزل

    قبر سے قہر کے آثار نکل آتے ہیں

    قبر سے قہر کے آثار نکل آتے ہیں خانقاہوں میں بھی دربار نکل آتے ہیں اڑتی پڑتی ہوئی بے کار سی افواہوں پر سرخیاں اوڑھ کے اخبار نکل آتے ہیں غم کے سیلاب میں ہم ڈوبتے اتراتے ہیں کبھی اس پار تو اس پار نکل آتے ہیں اتنی مایوسی ہے اب زخم کے بازاروں میں آنسوؤں کے بھی خریدار نکل آتے ہیں وہ ...

    مزید پڑھیے

    عدل سے منہ موڑ کر جب منصفی ہونے لگے

    عدل سے منہ موڑ کر جب منصفی ہونے لگے سخت کافر جرم بھی اب مذہبی ہونے لگے تشنگی کی آنکھ میں بے سمت تیور دیکھ کر کتنے دریا دل سمندر بھی ندی ہونے لگے حسرتیں پلنے لگی ہیں پھر نبوت کے لئے کچھ دنوں میں کیا خبر پیغمبری ہونے لگے انتہا کو جب بھی پہنچے قربتوں کا اشتیاق کیا پتا جبریل کی بھی ...

    مزید پڑھیے

    ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو

    ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو اتنا دریا کے تلاطم نے سنوارا مجھ کو پیاس ایسی ہے کہ اندر سے سلگتا ہے بدن اور پانی کے سوا کچھ نہیں چارا مجھ کو اب تو دامن کو لپکتے ہیں لہو کے شعلے اور پکارے ہے کہیں خون کا دھارا مجھ کو خوں بہا لے کے ابھی خیر سے پلٹے بھی نہ تھے مقتل خوف میں ...

    مزید پڑھیے

    عشرت نے تمناؤں کو بازار کیا ہے

    عشرت نے تمناؤں کو بازار کیا ہے مجبوری نے ہر شے کو خریدار کیا ہے ڈر تھا کہ کہیں میں بھی نہ بن جاؤں فرشتہ یہ سوچ کے اپنے کو گنہ گار کیا ہے ملنے کو ضرور آئیں گے اک روز در و بام مجھ کو اسی امید نے دیوار کیا ہے خوش رنگ پرندے تو نہیں کرتے بسیرا اک پیڑ نے شاخوں کو خبردار کیا ہے لفظوں ...

    مزید پڑھیے

    موسم ہجرت میں جو اپنوں سے بیگانے رہے

    موسم ہجرت میں جو اپنوں سے بیگانے رہے وہ شب ظلمت میں کتنے جانے پہچانے رہے ہوش والوں کو تماشے دیکھتے ہی منتظر دل پہ پتھر رکھ کے ہم اک عمر دیوانے رہے فاتح شب کی ہوس میں روشنی پہ مر مٹے خودکشی کی آڑ میں بے خوف پروانے رہے تج کے در تیرا مری آوارگی جاتی کہاں وہ تو کہیے شہر میں بے لوث ...

    مزید پڑھیے

    عشق کا کھیل بہ ہر حال گوارا ہوتا

    عشق کا کھیل بہ ہر حال گوارا ہوتا تم نہ ہوتے تو کوئی اور ہمارا ہوتا خوب چمکا تھا سر عرش مگر ڈوب گیا کاش سورج کو بھی تنکے کا سہارا ہوتا پال ہی رکھی تھی جب دولت دنیا کی ہوس کیسے پھر صبر و قناعت پہ گزارہ ہوتا اس کو میں ہجر کا عنوان بنا کر پڑھتا نامۂ عشق میں ہلکا سا اشارہ ہوتا کیسے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی سحر تو کبھی شام ہونا چاہتا ہوں

    کبھی سحر تو کبھی شام ہونا چاہتا ہوں کبھی پیالہ کبھی جام ہونا چاہتا ہوں نہیں ملے تھے تو شہرت کی بھوک جاگی تھی جو مل گئے ہو تو گمنام ہونا چاہتا ہوں ابھر رہے ہیں تری چاہتوں کے باغ و بہار میں چپکے چپکے دل آرام ہونا چاہتا ہوں سنہری یادیں ہی پلتی رہیں جس آنگن میں میں اس محل کے در و ...

    مزید پڑھیے

    گردش وقت پھر اک تازہ سفر مانگے ہے

    گردش وقت پھر اک تازہ سفر مانگے ہے اور مری خانہ بدوشی کوئی گھر مانگے ہے بام امید سے پلٹی ہوئی ناکام دعا باریابی کا کوئی اور ہنر مانگے ہے کاسۂ حرف بھی پندار کو گروی رکھ کر کبھی خلعت تو کبھی لعل و گہر مانگے ہے دل تو بس آپ کی رنگین خیالی میں ہے گم اور دھڑکن ترے آنے کی خبر مانگے ...

    مزید پڑھیے

    اک سادگی نبھائی ہے طرز سخن کے ساتھ

    اک سادگی نبھائی ہے طرز سخن کے ساتھ سودا نہیں کیا ہے کبھی فکر و فن کے ساتھ یہ کیا کہ بات بات پہ بس دل لگی کی بات تم بھی تو پیش آؤ کبھی اپنے پن کے ساتھ دل میں ترے خیال سے یوں روشنی ہوئی جیسے کہ صبح آئی ہو پہلی کرن کے ساتھ زخموں کا چاند دل کی تپش اور حیا کے رنگ اب سب چلے گئے ہیں تری ...

    مزید پڑھیے