قبر سے قہر کے آثار نکل آتے ہیں
قبر سے قہر کے آثار نکل آتے ہیں
خانقاہوں میں بھی دربار نکل آتے ہیں
اڑتی پڑتی ہوئی بے کار سی افواہوں پر
سرخیاں اوڑھ کے اخبار نکل آتے ہیں
غم کے سیلاب میں ہم ڈوبتے اتراتے ہیں
کبھی اس پار تو اس پار نکل آتے ہیں
اتنی مایوسی ہے اب زخم کے بازاروں میں
آنسوؤں کے بھی خریدار نکل آتے ہیں
وہ تو جاں لے کے مسلم ہیں وفاداری میں
ہم تو سر دے کے بھی غدار نکل آتے ہیں
جب بھی اڑ جاتے ہیں ہر حال میں بیعت پہ یزید
پھر کفن اوڑھ کے انکار نکل آتے ہیں
وہ محبت ہو سیاست ہو کہ ہو امن کہ جنگ
اب تو ہر موڑ پہ بازار نکل آتے ہیں
غم میں ڈوبی ہوئی بد حال سی سچائی پر
لڑکھڑاتے ہوئے اشعار نکل آتے ہیں