موسم ہجرت میں جو اپنوں سے بیگانے رہے

موسم ہجرت میں جو اپنوں سے بیگانے رہے
وہ شب ظلمت میں کتنے جانے پہچانے رہے


ہوش والوں کو تماشے دیکھتے ہی منتظر
دل پہ پتھر رکھ کے ہم اک عمر دیوانے رہے


فاتح شب کی ہوس میں روشنی پہ مر مٹے
خودکشی کی آڑ میں بے خوف پروانے رہے


تج کے در تیرا مری آوارگی جاتی کہاں
وہ تو کہیے شہر میں بے لوث مے خانے رہے


نہ حسیں خوابوں کا موسم اور نہ گل کی آرزو
اتنی مایوسی میں بھی ہم زندگی تانے رہے


بے نیاز دہر ہو کر عشق ہم کرتے رہے
اور زمانے کے لبوں پر صرف افسانے رہے


اک نظر میں لٹ گیا تھا دل کا شہر آرزو
زندگی میں دور تک خوابوں کے ویرانے رہے