گردش وقت پھر اک تازہ سفر مانگے ہے

گردش وقت پھر اک تازہ سفر مانگے ہے
اور مری خانہ بدوشی کوئی گھر مانگے ہے


بام امید سے پلٹی ہوئی ناکام دعا
باریابی کا کوئی اور ہنر مانگے ہے


کاسۂ حرف بھی پندار کو گروی رکھ کر
کبھی خلعت تو کبھی لعل و گہر مانگے ہے


دل تو بس آپ کی رنگین خیالی میں ہے گم
اور دھڑکن ترے آنے کی خبر مانگے ہے


اک تھکا ہارا مسافر کوئی دم لینے کو
بوڑھے برگد سے کوئی ایک پہر مانگے ہے


اپنی تاریکی سے خود رات بھی ہے خوف زدہ
اتنی وحشت ہے کہ اب خود ہی سحر مانگے ہے


پہلے محدود تھی دل تک ہی یہ ویرانیٔ جاں
اب یہ سنگین وبا پورا نگر مانگے ہے