عشق کا کھیل بہ ہر حال گوارا ہوتا
عشق کا کھیل بہ ہر حال گوارا ہوتا
تم نہ ہوتے تو کوئی اور ہمارا ہوتا
خوب چمکا تھا سر عرش مگر ڈوب گیا
کاش سورج کو بھی تنکے کا سہارا ہوتا
پال ہی رکھی تھی جب دولت دنیا کی ہوس
کیسے پھر صبر و قناعت پہ گزارہ ہوتا
اس کو میں ہجر کا عنوان بنا کر پڑھتا
نامۂ عشق میں ہلکا سا اشارہ ہوتا
کیسے آدم یہاں ابلیس بھی سجدے کرتا
نائب اللہ کا گر جگ میں اجارہ ہوتا
تنگ داماں ہی سہی دل تو کشادہ رکھتا
بہتا دریا نہ سہی کاش کنارہ ہوتا
اس بہانے سے میں کچھ خواب سنہرے کرتا
کم سے کم شہر میں تم سا کوئی پیارا ہوتا
پھر یہاں سب ہی مرے چاہنے والے نکلے
اس بھرے شہر میں کوئی تو ہمارا ہوتا
ایک اک کر کے سبھی چھوڑ چلے مقتل کو
ایسے حالات میں قاتل کو پکارا ہوتا
بہہ گئے ہم بھی بلا وجہ انا کی رو میں
اور کچھ دن ترے کوچے میں گزارہ ہوتا