Munir Arman Nasimi

منیر ارمان نسیمی

  • 1969

منیر ارمان نسیمی کی غزل

    اس دل میں ارمان بہت ہیں

    اس دل میں ارمان بہت ہیں ایک ہے گھر مہمان بہت ہیں میٹھی بولی بول کے دیکھو لٹنے کو انسان بہت ہیں مجبوری لاچاری غربت گھر میں تو سامان بہت ہیں باہر جانا ہے تو سوچو رستے کیوں سنسان بہت ہیں باہر ہے زوروں کی آندھی اندر بھی طوفان بہت ہیں

    مزید پڑھیے

    بھول جاؤں میں ادا کیسے اس ہرجائی کی

    بھول جاؤں میں ادا کیسے اس ہرجائی کی جس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی یاد جب اس کی چلی آئی مری راہوں میں لاج رکھ لی ہے اسی نے میری تنہائی کی ایسے اجڑا ہے ترے بعد مرے دل کا جہاں اچھی لگتی نہیں آواز بھی شہنائی کی دوڑ جاتی ہے لہر سی میرے دل کے اندر یاد جب آتی ہے اس شوخ کی انگڑائی ...

    مزید پڑھیے

    ہر دعا گر قبول ہو جائے

    ہر دعا گر قبول ہو جائے زندگی ہی فضول ہو جائے یہ دعا ہے کہ اپنی ہستی بھی ان کے قدموں کی دھول ہو جائے رشک آتا ہے اس کی قسمت پہ جس کی توبہ قبول ہو جائے بھول جاؤں اسے میں پل بھر کو کاش مجھ سے یہ بھول ہو جائے کس طرح تم چلو گے اے ارمانؔ گر یہ دنیا ببول ہو جائے

    مزید پڑھیے

    تمام شہر ہی دشمن ہے کیا کیا جائے

    تمام شہر ہی دشمن ہے کیا کیا جائے وفا کے نام سے بد ظن ہے کیا کیا جائے مجھی سے پوچھ رہا ہے یہ میرا ہمسایہ تمہارا گھر مرا آنگن ہے کیا کیا جائے گرا دیا تھا مرے گھر کو پچھلی بارش نے کہ پھر سے گھات میں ساون ہے کیا کیا جائے پڑھائی جاتی ہے مکتب میں اب غلط تاریخ فسادی ہاتھ میں بچپن ہے کیا ...

    مزید پڑھیے

    پھول خوشبو چاند جگنو اور ستارے آ گئے

    پھول خوشبو چاند جگنو اور ستارے آ گئے آپ کیا آئے خوشی کے استعارے آ گئے یاس کے گہرے سمندر سے نکلنا تھا محال آپ نے چاہا امیدوں کے کنارے آ گئے اپنی ساری نیکیاں ان کے حوالے ہو گئیں ان کے سب الزام لیکن سر ہمارے آ گئے بند اپنا در کیا جب اک امیر شہر نے میری خاطر میرے مولا کے سہارے آ ...

    مزید پڑھیے

    میرا حوصلہ دیکھ کیا چاہتا ہوں

    میرا حوصلہ دیکھ کیا چاہتا ہوں میں قطرہ سے دریا ہوا چاہتا ہوں غریبوں کے دکھ کی دوا چاہتا ہوں اور ان کے دلوں کی دعا چاہتا ہوں میں اب زیست میں کچھ نیا چاہتا ہوں کہ کمرے میں تازہ ہوا چاہتا ہوں میں اشکوں سے اپنے گناہوں کو دھو کر ترے در پہ حاضر ہوا چاہتا ہوں میرے حال پر رحم کر اے ...

    مزید پڑھیے

    پلایا اس نے جب سے شربت دیدار چٹکی میں

    پلایا اس نے جب سے شربت دیدار چٹکی میں نمایاں ہیں تبھی سے عشق کے آثار چٹکی میں خزاں دیدہ تھا اس سے پہلے میرا گلشن ہستی مرا باغ تمنا ہو گیا گلزار چٹکی میں کیا عرض تمنا میں نے جب وہ ہنس کے یہ بولے نہیں کرتے کسی سے عشق کا اظہار چٹکی میں تمہاری اک نگاہ ناز کے صدقے میں اے جاناں ہوئے ...

    مزید پڑھیے