تمام شہر ہی دشمن ہے کیا کیا جائے

تمام شہر ہی دشمن ہے کیا کیا جائے
وفا کے نام سے بد ظن ہے کیا کیا جائے


مجھی سے پوچھ رہا ہے یہ میرا ہمسایہ
تمہارا گھر مرا آنگن ہے کیا کیا جائے


گرا دیا تھا مرے گھر کو پچھلی بارش نے
کہ پھر سے گھات میں ساون ہے کیا کیا جائے


پڑھائی جاتی ہے مکتب میں اب غلط تاریخ
فسادی ہاتھ میں بچپن ہے کیا کیا جائے


جو بچے ہو گئے قابل اڑے وہ پنچھی سے
کہ سونا سونا سا آنگن ہے کیا کیا جائے


کہ سچ کچل دیا بیوہ کی حسرتوں کی طرح
کہ جھوٹ ہاتھ میں کنگن ہے کیا کیا جائے


حویلی دل کی ہے ارمانؔ سونی سونی سی
اداس روح کا آنگن ہے کیا کیا جائے