Muneer Niyazi

منیر نیازی

پاکستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل۔ فلموں کے لئے گیت بھی لکھے

One of the most outstanding modern poets who wrote both in Urdu and Punjabi. Also a film lyricist.

منیر نیازی کی غزل

    دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف

    دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف یاد پیچھے کھینچتی ہے آس آگے کی طرف چھوڑ کر نکلے تھے جس کو دشت غربت کی طرف دیکھنا شام و سحر اب گھر کے سائے کی طرف ہے ابھی آغاز دن کا اس دیار قید میں ہے ابھی سے دھیان سارا شب کے پہرے کی طرف صبح کی روشن کرن گھر کے دریچے پر پڑی ایک رخ چمکا ہوا میں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی مجھے اک دشت‌ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے

    ابھی مجھے اک دشت‌ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے ایک مسافت ختم ہوئی ہے ایک سفر ابھی کرنا ہے گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے یہ تو ابھی آغاز ہے ...

    مزید پڑھیے

    اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے

    اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے حد سے گزر گئی ہے یہاں رسم قاہری اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہئے اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہئے گم ہو چلے ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے

    بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی اس ادا کے سامنے تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر گئی دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے رات اک اجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی گونج اٹھے بام و در میری صدا کے سامنے وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اس کی مہک شمع دل بجھ سی ...

    مزید پڑھیے

    پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی

    پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی دل میں لیکن اور ہی اک شکل کی حسرت بھی تھی جو ہوا میں گھر بنائے کاش کوئی دیکھتا دشت میں رہتے تھے پر تعمیر کی عادت بھی تھی کہہ گیا میں سامنے اس کے جو دل کا مدعا کچھ تو موسم بھی عجب تھا کچھ مری ہمت بھی تھی اجنبی شہروں میں رہتے عمر ساری ...

    مزید پڑھیے

    اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ

    اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ چمک زر کی اسے آخر مکان خاک میں لائی بنایا سانپ نے جسموں میں ...

    مزید پڑھیے

    اور ہیں کتنی منزلیں باقی

    اور ہیں کتنی منزلیں باقی جان کتنی ہے جسم میں باقی زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں مردہ لوگوں کی عادتیں باقی اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں خواب معدوم حسرتیں باقی بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی وہ تو آ ...

    مزید پڑھیے

    غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا

    غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا یہ تو ہوا کہ آدمی پہنچا ہے ماہ تک کچھ بھی ہوا وہ واقف افلاک تو ہوا کچھ اور وہ ہوا نہ ہوا مجھ کو دیکھ کر یاد بہار حسن سے غم ناک تو ہوا اس کشمکش ...

    مزید پڑھیے

    ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں

    ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں جیسے رسم ادا کرتے ہوں شہروں کی آبادی میں صبح کو گھر سے دور نکل کر شام کو واپس آنے میں نیلے رنگ میں ڈوبی آنکھیں کھلی پڑی تھیں سبزے پر عکس پڑا تھا آسمان کا شاید اس پیمانے میں دبی ہوئی ہے زیر ...

    مزید پڑھیے

    دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے

    دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4