اور ہیں کتنی منزلیں باقی

اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی


زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی


اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں
خواب معدوم حسرتیں باقی


بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی


جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی


وہ تو آ کے منیرؔ جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی