اپنی وحشت کے نئے زخم چھپاؤں کیسے
اپنی وحشت کے نئے زخم چھپاؤں کیسے میں تری یاد کی دیوار گراؤں کیسے شہر دل میں ہے وہی آج بھی چپ کا عالم در و دیوار صداؤں سے سجاؤں کیسے گنبد فکر میں آوازیں ہی آوازیں ہیں میں ہر آواز کی تصویر بناؤں کیسے
اپنی وحشت کے نئے زخم چھپاؤں کیسے میں تری یاد کی دیوار گراؤں کیسے شہر دل میں ہے وہی آج بھی چپ کا عالم در و دیوار صداؤں سے سجاؤں کیسے گنبد فکر میں آوازیں ہی آوازیں ہیں میں ہر آواز کی تصویر بناؤں کیسے
کہتے ہیں کہ محبت کا کوئی موسم نہیں ہوتا لیکن میرے لیے تو ہر موسم محبت کا موسم ہے جب چاہا یادوں کے دیپ جلا کر روشنی کر لی کہ محبت کا موسم تو دل کے اندر ہوتا ہے
زندگی اپنے لہو سے سرشار کامراں نغمہ سرا چلتی رہی کارواں چلتے رہے بانگ درا ہوتی رہی معرکے سر ہوئے رن پڑتے رہے شمع تعمیر مگر جلتی رہی
یہ زندگی ہے جاوداں مثال آب جو رواں تو قید بند و ذات ہے کہ ذات بے ثبات ہے ہمارے درد کی دوا خودی کی کائنات ہے خودی کی کائنات میں نجات ہے ثبات ہے
یہ کارواں نمود کا یہ سلسلہ وجود کا یہ آسماں یہ کہکشاں جو کچھ بھی نزد و دور ہے یہ ایک ہی وجود کی نمود ہے نہ ابتدا نہ انتہا فقط بقا