منور خان غافل کی غزل

    کیوں کر یہ تف اشک سے مژگاں میں لگی آگ

    کیوں کر یہ تف اشک سے مژگاں میں لگی آگ شبنم سے کہیں بھی ہے نیستاں میں لگی آگ نہ اس سے دھواں نکلے ہے نہ شعلہ اٹھے ہے یہ طرفہ ہمارے دل نالاں میں لگی آگ آتش جو ہمارے تن پر داغ کی بھڑکی دامن سے بجھائی تو گریباں میں لگی آگ گھر تو نے رقیبوں کا نہ اے آہ جلایا پھر کیا جو مرے کلبہ احزاں میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال

    نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال جسے نہ عشق ہو وہ جانے کیا ہمارا حال یقین ہے کہ کہیں گے وہ ہم صفیروں سے قفس میں دیکھ گئی ہے صبا ہمارا حال عجب ہے اس کا جو اب تک نہیں سنا اس نے فسانۂ سر بازار تھا ہمارا حال گلا یہی ہمیں قاصد سے ہے کہ اس گل کو نہ خط دیا نہ زبانی کہا ہمارا ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں

    وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں تڑپنے کو تماشا جانتے ہیں بہار گل ہے خار آنکھوں میں تجھ بن چمن کو ہم تو صحرا جانتے ہیں کہیں کیا حال دل اپنا بتوں سے جو ہے دل میں تمنا جانتے ہیں ستانا قتل کرنا پھر جلانا وہ بے تعلیم کیا کیا جانتے ہیں ملیں ہم کیوں نہ آنکھیں برگ گل سے اسے تیرا کف پا ...

    مزید پڑھیے

    ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ

    ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ اپنی کو‌ کو پر کرے ہرگز نہ غرہ فاختہ جل کے خاکستر ابھی ہو جائے تو اک آن میں گر ترے دل میں ہو سوز عشق ذرہ فاختہ چشم تر سے اپنی تو سیراب رکھ شمشاد کو یاں درخت خشک پر چلتا ہے ارہ فاختہ جامۂ خاکستری سے تیرے یہ ثابت ہوا اپنی درویشی کا ہے تجھ بھی غرہ ...

    مزید پڑھیے

    تیغ پر خوں وہ اگر دھوئے کنار دریا

    تیغ پر خوں وہ اگر دھوئے کنار دریا خندہ زن رنگ چمن پر ہو بہار دریا عطش عشق کی لذت یہ ملی ہے ہم کو جا گریں آگ میں اور ہوں نہ دوچار دریا درۂ موج لگاتا ہے اسے بے تقصیر کیوں نہ ہو لاشہ مرا شکوہ گزار دریا سرخیٔ عکس شفق پر جو پڑا لب کا گماں لعل‌ و یاقوت کیے ہم نے نثار دریا نخل خواہش جو ...

    مزید پڑھیے

    کس طرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں

    کس طرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں گھس گئی اس کی زباں تو شکوۂ صیاد میں دادخواہوں کی اگر پرسش ہوئی روز جزا سب سے پہلے آئیں گے ہم عرصۂ فریاد میں کیا لپٹ جائیں ترا قامت سمجھ کر اس کو ہم یہ نزاکت یہ صباحت ہے کہاں شمشاد میں کام معشوقوں سے بھی عاشق کے لیتا ہے یہ عشق کیوں نہ شیریں جان ...

    مزید پڑھیے

    شانہ تو چھٹا زلف پریشاں سے الجھ کر

    شانہ تو چھٹا زلف پریشاں سے الجھ کر سلجھا نہ یہ دل کاکل پیچاں سے الجھ کر لیتا ہے خبر کون اسیران بلا کی مر مر گئے تاریکیٔ زنداں سے الجھ کر زوروں پہ چڑھا ہے یہ مرا پنجۂ وحشت دامن سے الجھتا ہے گریباں سے الجھ کر دیوانے خط‌ و زلف کے سودے کی لہر میں کیا کیا نہ بکے سنبل و ریحاں سے الجھ ...

    مزید پڑھیے

    ہر عضو بدن ایک سے ہے ایک ترا خوب

    ہر عضو بدن ایک سے ہے ایک ترا خوب سینے کی صفائی سے ہے چہرے کی صفا خوب قاصد کے بدن پر الف زخم لگے ہیں خط کا مرے لکھا یہ جواب آپ نے کیا خوب آگاہ نہیں ہے کوئی احوال سے میرے جو مجھ پہ گزرتی ہے وہ جانے ہے خدا خوب بن بن کے دہن حلقۂ گیسوئے مسلسل لوٹے ہے ترے بوسۂ عارض کا مزا خوب ابتر ...

    مزید پڑھیے

    مرتے دم او بے وفا دیکھا تجھے

    مرتے دم او بے وفا دیکھا تجھے اک نظر دیکھا تو کیا دیکھا تجھے اے پری رو کیوں نہ میں دیوانہ ہوں بال کھولے بارہا دیکھا تجھے نکہت گل بھی نہ لائی تا قفس چل ہوا ہو اے صبا دیکھا تجھے گریۂ بلبل پر اس نے ہنس دیا جس نے اے گل گوں قبا دیکھا تجھے دید میں ہر چند سو نقصان تھے فائدہ اک یہ ہوا ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے

    نگاہ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے کسی کی کچھ نہیں چلتی ہے جب تقدیر پھرتی ہے مرقع ہے مری آنکھوں میں کیا یاران رفتہ کا جو نظروں کے تلے ہر ایک کی تصویر پھرتی ہے ترا دیوانہ جب سے اٹھ گیا صحرائے وحشت سے بگولے کی طرح سے ڈھونڈھتی زنجیر پھرتی ہے تری تلوار کا منہ ہم سے پھر جائے تو پھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2