تیغ پر خوں وہ اگر دھوئے کنار دریا

تیغ پر خوں وہ اگر دھوئے کنار دریا
خندہ زن رنگ چمن پر ہو بہار دریا


عطش عشق کی لذت یہ ملی ہے ہم کو
جا گریں آگ میں اور ہوں نہ دوچار دریا


درۂ موج لگاتا ہے اسے بے تقصیر
کیوں نہ ہو لاشہ مرا شکوہ گزار دریا


سرخیٔ عکس شفق پر جو پڑا لب کا گماں
لعل‌ و یاقوت کیے ہم نے نثار دریا


نخل خواہش جو نہیں ہوتا ہے اس سے سرسبز
گریہ کرتا ہے مرا خندہ بہ کار دریا


مچھلیاں لخت جگر بنتی ہیں دریا آنسو
کس گل تر کو ہوا شوق شکار‌ دریا


کیا گل اندام کوئی اس میں نہایا تھا جو آج
رگ گل سے ہیں معطر خس و خار دریا


کس کی زلف عرق افشاں کا تصور ہے انہیں
لپٹے ہی جاتے ہیں بہروں سے جو مار دریا


سیل‌ آفات میں تن دیتے ہیں جو اے غافلؔ
مثل‌ خاشاک وہ رہتے ہیں سوار دریا