منور خان غافل کی غزل

    آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

    آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد میان میں اس نے جو کی تیغ جفا میرے بعد خوں گرفتہ کوئی کیا اور نہ تھا میرے بعد دوستی کا بھی تجھے پاس نہ آیا ہے ہے تو نے دشمن سے کیا میرا گلا میرے بعد گرم بازاریٔ الفت ہے مجھی سے ورنہ کوئی لینے کا نہیں نام وفا ...

    مزید پڑھیے

    ہر کوئی اس کا خریدار ہوا چاہتا ہے

    ہر کوئی اس کا خریدار ہوا چاہتا ہے گرم پھر حسن کا بازار ہوا چاہتا ہے دیکھ لینا غم معشوق میں کڑھتے کڑھتے کچھ نہ کچھ اب مجھے آزار ہوا چاہتا ہے آنکھ للچائی ہوئی پڑتی ہے جس پر میری عشق اس پر مرا اظہار ہوا چاہتا ہے کہہ دو اس پردہ نشیں سے تری خاطر کوئی آج رسوا سر بازار ہوا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے میں لباس عاریت کو کیا سمجھتا ہوں

    کسی کے میں لباس عاریت کو کیا سمجھتا ہوں پھٹے کپڑوں کو اپنی خلعت دیبا سمجھتا ہوں جہاں دیوانہ کوئی اپنے سائے سے الجھتا ہے اسے زلف مسلسل کا تری سودا سمجھتا ہوں میں گو مجنوں ہوں پر مطلب نہیں کچھ کوہ و صحرا سے سواد شہر ہی کو خیمۂ لیلےٰ سمجھتا ہوں ہزاروں باغ دنیا میں تماشے میں نے ...

    مزید پڑھیے

    چشم خونبار سا برسے نہ کبھو پانی ایک

    چشم خونبار سا برسے نہ کبھو پانی ایک ابر ہر چند کرے اپنا لہو پانی ایک شست و شو نامۂ اعمال کی جس سے ہوئے برس اے ابر کرم مجھ پہ وہ تو پانی ایک لاکھ پانی سے میں دھویا نہ چھٹا زخم کا خون کام آیا نہ مرے وقت رفو پانی ایک آج تک اشک مری آنکھ سے گرتے ہیں سفید ظرف میں اپنے یہ رکھتا ہے سبو ...

    مزید پڑھیے

    ہے کون شے جس کی ضد نہیں ہے جہاں خوشی ہے ملال بھی ہے

    ہے کون شے جس کی ضد نہیں ہے جہاں خوشی ہے ملال بھی ہے غم جدائی نہ کھا تو اے دل فراق ہے تو وصال بھی ہے جو ٹیکہ صندل کا ہے جبیں پر تو پاس ابرو کی خال بھی ہے سپہر خوبی یہ ماہ بھی ہے سبیل بھی ہے ہلال بھی ہے مثال در نجف سے کیا دوں عذار‌ سادہ کو اس پری کے نہیں ہے بال اس میں نام کو بھی یہ عیب ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون سا پروانہ موا جل کے لگن میں

    یہ کون سا پروانہ موا جل کے لگن میں حیرت سے جو ہے شمع کی انگشت دہن میں کہتے ہیں اسے چاہ زنخداں غلطی سے بوسے کا نشاں ہے یہ ترے سیب ذقن میں وہ آئنہ تن آئنہ پھر کس لیے دیکھے جو دیکھ لے منہ اپنا ہر اک عضو بدن میں وہ صبح کو اس ڈر سے نہیں بام پر آتا نامہ نہ کوئی باندھ دے سورج کی کرن ...

    مزید پڑھیے

    گل ہے عارض تو قد یار درخت

    گل ہے عارض تو قد یار درخت کب ہو ایسا بہاردار درخت رشک سے اک نہال قد کے ترے کٹ گئے جل گئے ہزار درخت خواہش‌ سنگ تھی جو مجنوں کو قبر پر بھی ہے میوہ دار درخت کس کی وحشت نے خاک اڑائی ہے دشت میں ہیں جو پر غبار درخت دامن یار اس سے الجھے گا ہو نہ گلشن میں خار دار درخت نالۂ کوہکن سے جل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2