منور خان غافل کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    کیوں کر یہ تف اشک سے مژگاں میں لگی آگ

    کیوں کر یہ تف اشک سے مژگاں میں لگی آگ شبنم سے کہیں بھی ہے نیستاں میں لگی آگ نہ اس سے دھواں نکلے ہے نہ شعلہ اٹھے ہے یہ طرفہ ہمارے دل نالاں میں لگی آگ آتش جو ہمارے تن پر داغ کی بھڑکی دامن سے بجھائی تو گریباں میں لگی آگ گھر تو نے رقیبوں کا نہ اے آہ جلایا پھر کیا جو مرے کلبہ احزاں میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال

    نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال جسے نہ عشق ہو وہ جانے کیا ہمارا حال یقین ہے کہ کہیں گے وہ ہم صفیروں سے قفس میں دیکھ گئی ہے صبا ہمارا حال عجب ہے اس کا جو اب تک نہیں سنا اس نے فسانۂ سر بازار تھا ہمارا حال گلا یہی ہمیں قاصد سے ہے کہ اس گل کو نہ خط دیا نہ زبانی کہا ہمارا ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں

    وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں تڑپنے کو تماشا جانتے ہیں بہار گل ہے خار آنکھوں میں تجھ بن چمن کو ہم تو صحرا جانتے ہیں کہیں کیا حال دل اپنا بتوں سے جو ہے دل میں تمنا جانتے ہیں ستانا قتل کرنا پھر جلانا وہ بے تعلیم کیا کیا جانتے ہیں ملیں ہم کیوں نہ آنکھیں برگ گل سے اسے تیرا کف پا ...

    مزید پڑھیے

    ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ

    ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ اپنی کو‌ کو پر کرے ہرگز نہ غرہ فاختہ جل کے خاکستر ابھی ہو جائے تو اک آن میں گر ترے دل میں ہو سوز عشق ذرہ فاختہ چشم تر سے اپنی تو سیراب رکھ شمشاد کو یاں درخت خشک پر چلتا ہے ارہ فاختہ جامۂ خاکستری سے تیرے یہ ثابت ہوا اپنی درویشی کا ہے تجھ بھی غرہ ...

    مزید پڑھیے

    تیغ پر خوں وہ اگر دھوئے کنار دریا

    تیغ پر خوں وہ اگر دھوئے کنار دریا خندہ زن رنگ چمن پر ہو بہار دریا عطش عشق کی لذت یہ ملی ہے ہم کو جا گریں آگ میں اور ہوں نہ دوچار دریا درۂ موج لگاتا ہے اسے بے تقصیر کیوں نہ ہو لاشہ مرا شکوہ گزار دریا سرخیٔ عکس شفق پر جو پڑا لب کا گماں لعل‌ و یاقوت کیے ہم نے نثار دریا نخل خواہش جو ...

    مزید پڑھیے

تمام