مرتے دم او بے وفا دیکھا تجھے

مرتے دم او بے وفا دیکھا تجھے
اک نظر دیکھا تو کیا دیکھا تجھے


اے پری رو کیوں نہ میں دیوانہ ہوں
بال کھولے بارہا دیکھا تجھے


نکہت گل بھی نہ لائی تا قفس
چل ہوا ہو اے صبا دیکھا تجھے


گریۂ بلبل پر اس نے ہنس دیا
جس نے اے گل گوں قبا دیکھا تجھے


دید میں ہر چند سو نقصان تھے
فائدہ اک یہ ہوا دیکھا تجھے


حلقۂ گیسو ہے گردن میں پڑا
آپ اپنا مبتلا دیکھا تجھے


کیا تری نیرنگیاں کیجے بیان
سب میں اور سب سے جدا دیکھا تجھے


برق‌ آفت آج ہی ہم پر گری
ورنہ ہنستے بارہا دیکھا تجھے


آج تک اے بیکسی چھوڑا نہ ساتھ
ایک ثابت آشنا دیکھا تجھے


دزدیٔ دل کا یقیں ہو کس طرح
کس نے اے دزد حنا دیکھا تجھے


ہم نے غافلؔ بت کدے میں دہر کے
ایک مرد باخدا دیکھا تجھے