Mumtaz Mirza

ممتاز میرزا

ممتاز میرزا کی غزل

    زمانہ گزرا ہے طوفان غم اٹھائے ہوئے

    زمانہ گزرا ہے طوفان غم اٹھائے ہوئے غزل کے پردے میں روداد دل سنائے ہوئے ہمیں تھے جن سے گناہ وفا ہوا سرزد کھڑے ہیں دار کے سائے میں سر جھکائے ہوئے ہمارے دل کے سبھی راز فاش کرتے ہیں جھکی جھکی سی نظر ہونٹ کپکپائے ہوئے ہمارے دل کے اندھیروں کا غم نہ کر ہم دم ہمارے دم سے یہ رستے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر درد کے ہر غم کے طلب گار ہمیں ہیں

    ہر درد کے ہر غم کے طلب گار ہمیں ہیں اس جنس گرامی کے خریدار ہمیں ہیں دنیا میں جفاؤں کے سزاوار ہمیں ہیں ممتازؔ بہ ہر حال گناہ گار ہمیں ہیں جو عشق میں گزری ہے سو گزری ہے ہمیں پر آوارہ و رسوا سر بازار ہمیں ہیں اب کون کرے روز نئی ان سے شکایت اچھا چلو تسلیم جفا کار ہمیں ہیں ممتازؔ جو ...

    مزید پڑھیے

    غموں میں ڈوبی ہوئی ہے ہر اک خوشی میری

    غموں میں ڈوبی ہوئی ہے ہر اک خوشی میری عجیب طور سے گزری ہے زندگی میری ہر ایک لمحہ گزرتا ہے حادثے کی طرح بس ایک درد مسلسل ہے زندگی میری خیال و فکر نے کیا کیا صنم تراشے تھے تمام عمر پرستش میں کٹ گئی میری مرا سفینۂ ہستی ہے اور موج بلا تماشا دیکھتی رہتی ہے بے بسی میری ہجوم درد میں ...

    مزید پڑھیے

    پلکوں پہ کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

    پلکوں پہ کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں اس زندگی کے مرحلے آساں ہوئے تو ہیں میری جبیں نے جن کو نوازا تھا کل تلک وہ ذرے آج مہر درخشاں ہوئے تو ہیں نادم بھی ہوں گے اپنی جفاؤں پہ ایک دن وہ کم نگاہیوں پہ پشیماں ہوئے تو ہیں شمع وفا جلاتے ہیں ظلمت کدوں میں جو وہ لوگ اس جہاں میں پریشاں ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    بہت دعوے کیے ہیں آگہی نے

    بہت دعوے کیے ہیں آگہی نے نہیں سمجھا محبت کو کسی نے جبیں پر خاک کے ذرے نہیں ہیں ستارے چن دیے ہیں بندگی نے شکایت ہے انہیں بھی زندگی سے جنہیں سب کچھ دیا ہے زندگی نے صبا سے پوچھیے کیا گل کھلائے چمن میں ان کی آہستہ روی نے خدا غارت کرے دست ستم کو ابھی تو آنکھ کھولی تھی کلی نے مہ و ...

    مزید پڑھیے

    پردۂ ذہن سے سایہ سا گزر جاتا ہے

    پردۂ ذہن سے سایہ سا گزر جاتا ہے جیسے پل بھر کو مرا دل بھی ٹھہر جاتا ہے تیری یادوں کے دیے جب بھی جلاتا ہے یہ دل حسن کچھ اور شب غم کا نکھر جاتا ہے حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے رات بھیگے تو اک انجان سا بے نام سا درد چاندنی بن کے فضاؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    رنگ کچھ شوخ سے تصویر میں بھر کر دیکھو

    رنگ کچھ شوخ سے تصویر میں بھر کر دیکھو زندگی شوخ ہے اس شوخ پہ مر کر دیکھو ایک پل کے لیے ممتازؔ ٹھہر کر دیکھو دل کی جانب بھی ذرا ایک نظر کر دیکھو اپنی ہستی کا صنم توڑو تو پاؤ گے نجات ریت کے ذروں کی مانند بکھر کر دیکھو کتنا پیارا ہے جہاں کتنی حسیں ہے یہ حیات یاس و اندوہ کے دریا سے ...

    مزید پڑھیے

    یہ وفا مانگے ہے تم سے نہ جفا مانگے ہے

    یہ وفا مانگے ہے تم سے نہ جفا مانگے ہے میری معصوم جبیں ایک خدا مانگے ہے دل کا ہر زخم مرا داد وفا مانگے ہے بے گناہی مری اب تم سے سزا مانگے ہے دل کم بخت کو دیکھو تو یہ کیا مانگے ہے ایک بت سب سے الگ سب سے جدا مانگے ہے اک اچٹتی سی نظر ایک تبسم کی کرن دل کم ظرف وفاؤں کا صلا مانگے ہے ہوش ...

    مزید پڑھیے

    لائی بہار شوق کے ساماں نئے نئے

    لائی بہار شوق کے ساماں نئے نئے دنیا نئی نئی سی دل و جاں نئے نئے ساقی کی اک نگاہ نے بخشی حیات نو دل میں مچل گئے مرے ارماں نئے نئے ہر آن طرز نو سے ستائے ہے آسماں میرے لیے ستم کے ہیں عنواں نئے نئے بربادیوں کا اپنے نشیمن کی غم نہیں تعمیر ہو رہے ہیں گلستاں نئے نئے فصل بہار آئی مبارک ...

    مزید پڑھیے

    پھول جب کوئی بکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں

    پھول جب کوئی بکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں درد جب حد سے گزرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں پردۂ ذہن پہ ماضی کے جھروکوں سے کبھی ایک چہرہ سا ابھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں صبح تک جلنا پگھلنا ہے ہماری قسمت رنگ شب یوں جو نکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں آگہی بھولنے دیتی نہیں ہستی کا مآل ٹوٹ کے خواب بکھرتا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2