پلکوں پہ کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
پلکوں پہ کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
اس زندگی کے مرحلے آساں ہوئے تو ہیں
میری جبیں نے جن کو نوازا تھا کل تلک
وہ ذرے آج مہر درخشاں ہوئے تو ہیں
نادم بھی ہوں گے اپنی جفاؤں پہ ایک دن
وہ کم نگاہیوں پہ پشیماں ہوئے تو ہیں
شمع وفا جلاتے ہیں ظلمت کدوں میں جو
وہ لوگ اس جہاں میں پریشاں ہوئے تو ہیں
کس موج خوں سے گزرے ہیں ممتازؔ کیا کہیں
کہنے کو آج ہم بھی غزل خواں ہوئے تو ہیں