یہ کہہ کے رخنے ڈالیے ان کے حجاب میں
یہ کہہ کے رخنے ڈالیے ان کے حجاب میں اچھے برے کا حال کھلے کیا نقاب میں خورشید زار ہووے زمیں دے جھٹک ذرا سو آفتاب ہیں ترے گرد نقاب میں بے اعتدالیاں مری ظرف تنک سے ہیں تھا نقص کچھ نہ جوہر صہبائے ناب میں اٹھنے میں صبح کے یہ کہاں سر گرانیاں زاہد نے مے کا جلوہ یہ دیکھا ہے خواب ...