Mufti Sadruddin Aazurda

مفتی صدرالدین آزردہ

مفتی صدرالدین آزردہ کی غزل

    یہ کہہ کے رخنے ڈالیے ان کے حجاب میں

    یہ کہہ کے رخنے ڈالیے ان کے حجاب میں اچھے برے کا حال کھلے کیا نقاب میں خورشید زار ہووے زمیں دے جھٹک ذرا سو آفتاب ہیں ترے گرد نقاب میں بے اعتدالیاں مری ظرف تنک سے ہیں تھا نقص کچھ نہ جوہر صہبائے ناب میں اٹھنے میں صبح کے یہ کہاں سر گرانیاں زاہد نے مے کا جلوہ یہ دیکھا ہے خواب ...

    مزید پڑھیے

    شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں

    شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں تھا غرق میں تصور آتش سے آب میں یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو آوے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں یا رب یہ کس نے چہرے سے الٹا نقاب جو سو رخنے اب نکلنے لگے آفتاب میں کیا عقل محتسب کی کہ لایا ہے کھینچ کر سودا زدوں کو محکمۂ احتساب میں ہم جان و ...

    مزید پڑھیے

    نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں

    نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں کب آسماں زمین و زمیں آسماں نہیں قاتل کی چشم تر نہ ہو یہ ضبط آہ دیکھ جوں شمع سر کٹے پہ اٹھا یاں دھواں نہیں اے بلبلان شعلہ دم اک نالہ اور بھی گم کردہ راہ باغ ہوں یاد آشیاں نہیں اس بزم میں نہیں کوئی آگاہ ورنہ کب واں خندہ زیر لب ادھر اشک نہاں ...

    مزید پڑھیے

    نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں

    نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں کب آسماں زمین و زمیں آسماں نہیں آنکھوں سے دیکھ کر تجھے سب ماننا پڑا کہتے تھے جو ہمیشہ چنیں ہے چناں نہیں اس بزم میں نہیں کوئی آگاہ درد کب واں خندہ زیر لب ادھر اشک نہاں نہیں افسردہ دل نہ ہو در رحمت نہیں ہے بند کس دن کھلا ہوا در پیر مغاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2