Mufti Sadruddin Aazurda

مفتی صدرالدین آزردہ

مفتی صدرالدین آزردہ کی غزل

    ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے

    ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے یہ وہ متاع ہے کہ نہ لیں مفت اگر ملے انصاف کر کہ لاؤں میں پھر کون سا وہ دن محشر کے روز بھی نہ جو داد جگر ملے پروانہ وار ہے حد پرواز شعلہ تک جلنے ہی کے لیے مجھے یہ بال و پر ملے آنے سے خط کے جاتے رہے وہ بگاڑ سب بن آئی اب تو حضرت دل لو خضر ملے کیا شکر کا ...

    مزید پڑھیے

    نکلنا ہو دل سے دشوار کیوں

    نکلنا ہو دل سے دشوار کیوں یہ اک آہ ہے اس کا پیکاں نہیں یہ ہاتھ اس کے دامن تلک پہنچے کب رسائی جسے تاگریباں نہیں فلک نے بھی سیکھے ہیں تیرے سے طور کہ اپنے کیے سے پشیماں نہیں مرا نامۂ شوق تلووں تلے نہ ملیے یہ خون شہیداں نہیں اسی کی سی کہنے لگے اہل حشر کہیں پرسش داد خواہاں نہیں

    مزید پڑھیے

    کاش مقبول ہو دعائے عدو (ردیف .. ن)

    کاش مقبول ہو دعائے عدو کیا کروں وہ بھی مستجاب نہیں اب تو اس چشم تر کا چرچا ہے ذکر دریا نہیں سحاب نہیں جمع طوفان و چشم تر مصرف اب مصارف کا کچھ حساب نہیں دھو دیا سب کو دیدۂ تر نے وہ نہیں درس وہ کتاب نہیں عشق بازی کا منہ چڑانا ہے اور وہ موسم نہیں شباب نہیں تیری آنکھوں کے دور میں ...

    مزید پڑھیے

    اک بات پر بگڑے گئے نہ جو عمر بھر ملے

    اک بات پر بگڑے گئے نہ جو عمر بھر ملے اس سے طریق صلح کے کیا صلح گر ملے باہم سلوک تھا پہ ترے دور حسن میں یہ رسم اٹھ گئی کہ بشر سے بشر ملے دل محو چشم یار تھا بیمار ہو گیا کچھ ان پرستشوں کا بھی آخر ثمر ملے اے نالہ تو نے ساتھ دیا آہ کا تو کیا امید کیا اثر کی جو دو بے اثر ملے صدمہ جگر پہ ...

    مزید پڑھیے

    کیا جانو جو اثر ہے دم شعلہ تاب میں

    کیا جانو جو اثر ہے دم شعلہ تاب میں یہ وہ ہے برق آگ لگا دے نقاب میں حال اس نگہ کا اس کے سراپے میں کیا کہوں مور ضعیف پھنس گئی جا شہد ناب میں ذکر وفا وہ سنتے ہی مجلس سے اٹھ گئے کچھ گفتگو ہی ٹھیک نہ تھی ایسے باب میں کیا پوچھتے ہو چارۂ ہو از خویش رفتگاں سو جا سے چاک جامہ ہے سوزن خلاب ...

    مزید پڑھیے

    پلا ساقیا مئے خنک آب میں

    پلا ساقیا مئے خنک آب میں کہ تھمتی نہیں توبہ مہتاب میں گیا دین کیسا حضور نماز وہ یاد آئے ابرو جو محراب میں ملے کچھ تو زخم جگر کا مزہ بجھا کر رکھا تیغ زہراب میں الٰہی فلک جس سے پھٹ جائے دے وہ تاثیر آہ جگر تاب میں بلند آشیانوں پہ بجلی گری جو نیچے تھے ڈوبے وہ سیلاب میں وہ عریاں ...

    مزید پڑھیے

    یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں

    یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں اچھے برے کا حال کھلے گا نقاب میں یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو آئے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں تحقیق ہو تو جانوں کہ میں کیا ہوں قیس کیا لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں میں اور ذوق بادہ کشی لے گئیں مجھے یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے

    آنکھ اٹھائی نہیں وہ سامنے سو بار ہوئے ہجر میں ایسے فرامش گر دیدار ہوئے کامل اس فرقۂ زہاد میں اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے نہ اٹھی بیٹھ کے خاک اپنی ترے کوچے میں ہم نہ یاں دوش ہوا کے بھی کبھی یار ہوئے صبح لے آئنہ اس بت کو دکھایا ہم نے رات اغیار سے ملنے کے جو ...

    مزید پڑھیے

    اگر ہم نہ تھے غم اٹھانے کے قابل

    اگر ہم نہ تھے غم اٹھانے کے قابل تو کیوں ہوتے دنیا میں آنے کے قابل کروں چاک سینہ تو سو بار لیکن نہیں داغ دل یہ دکھانے کے قابل ملیں تم سے کیونکر رہے ہی نہیں ہم بلانے کے قابل نہ آنے کے قابل چھٹے بھی قفس سے تو کس کام کے ہیں نہیں جب چمن تک بھی جانے کے قابل بجز اس کے تھے خاک پہلے بھی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں

    مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں کیا رشک دیکھ کر مجھے رنگ خزاں نہیں آنکھوں سے دیکھ کر تجھے سب ماننا پڑا کہتے تھے جو ہمیشہ چنیں ہے چناں نہیں اٹھ کر سحر کو سجدۂ مستانہ کے سوا طاعت قبول خاطر پیر مغاں نہیں افسردہ دل ہو در در رحمت نہیں ہے بند کس دن کھلا ہوا در پیر مغاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2