یہ کہہ کے رخنے ڈالیے ان کے حجاب میں
یہ کہہ کے رخنے ڈالیے ان کے حجاب میں
اچھے برے کا حال کھلے کیا نقاب میں
خورشید زار ہووے زمیں دے جھٹک ذرا
سو آفتاب ہیں ترے گرد نقاب میں
بے اعتدالیاں مری ظرف تنک سے ہیں
تھا نقص کچھ نہ جوہر صہبائے ناب میں
اٹھنے میں صبح کے یہ کہاں سر گرانیاں
زاہد نے مے کا جلوہ یہ دیکھا ہے خواب میں
تحقیق ہو تو جانوں کہ میں کیا ہوں قیس کیا
لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں
میں اور ذوق بادہ کشی لے گئیں مجھے
یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں
امداد چشم کیا ہو لگی دل کو آگ جب
جلنے کے بعد خوں نہیں رہتا کباب میں
ہیں دونوں مثل شیشہ یہ سامان صد شکست
جیسا ہے میرے دل میں نہیں ہے حباب میں
انوار فکر سے نہ ہوا کچھ بھی انکشاف
جتنا بڑھے ہم اور بڑھی جا حجاب میں
یہ عمر اور عشق ہے آزردہؔ جائے شرم
حضرت یہ باتیں پھبتی ہیں عہد شباب میں