عشق میں اک آسانی ہے سب چیزیں کم کم کافی ہیں
عشق میں اک آسانی ہے سب چیزیں کم کم کافی ہیں ہم کو بھی اب وصل و ہجر کے دو ہی موسم کافی ہیں جا تو اس کا ہو جا جاناں اس کو عشق ضروری ہے اپنے لئے تو تیری یادیں غزلیں اور رم کافی ہیں کون ہیں یہ جو بین کرے ہیں ان سے کہیے گھر جائیں ایک جنازے میں اک انساں اور اس کے غم کافی ہیں ہونٹ ہوئے ...