مدتا رستوگی کی نظم

    محبت کے تصور میں

    یہ سچ ہے میں نے چاہا تھا کہ میری زندگی میں عشق بن کر جب بھی تو آئے تو یوں آئے کے جیسے موت آتی ہے تھکی ہاری سی سانسوں کو سکوں کی تھپکیاں دینے بدن کو روح کو یوں بھینچ کر آغوش میں لینے کہ پھر سب اس کا ہو جائے نہ کچھ بھی چھوٹنے پائے کے اس آغوش سے اپنی نہ پھر کوئی رہائی ہو کسی کی جان لینا ...

    مزید پڑھیے