مدتا رستوگی کی غزل

    عشق میں اک آسانی ہے سب چیزیں کم کم کافی ہیں

    عشق میں اک آسانی ہے سب چیزیں کم کم کافی ہیں ہم کو بھی اب وصل و ہجر کے دو ہی موسم کافی ہیں جا تو اس کا ہو جا جاناں اس کو عشق ضروری ہے اپنے لئے تو تیری یادیں غزلیں اور رم کافی ہیں کون ہیں یہ جو بین کرے ہیں ان سے کہیے گھر جائیں ایک جنازے میں اک انساں اور اس کے غم کافی ہیں ہونٹ ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ریزہ ریزہ ترک یہ رشتہ ہوا

    ریزہ ریزہ ترک یہ رشتہ ہوا سچ کہیں تو جو ہوا اچھا ہوا یاد کر دریا کو صحرا رو پڑا اور پھر وہ آپ ہی دریا ہوا اس کے کوچے جا کے پوچھیں گے کبھی کیوں لگے یہ راستہ دیکھا ہوا ایک تو دل کے قدم بھی تیز تھے اس پہ زینہ عشق کا بھیگا ہوا تنہا تنہا سو گئے ہم اور پھر آیا تو تو یہ بھی کیا آنا ہوا

    مزید پڑھیے

    وہ عاشق ہے مگر میرا نہیں ہے

    وہ عاشق ہے مگر میرا نہیں ہے کے اس کے عشق میں نقطہ نہیں ہے ہمیں خود سے محبت ہو گئی ہے ہمارے گھر میں آئینہ نہیں ہے ابھی سے کیوں یہ پلکیں جھک رہی ہیں ابھی ہم نے اسے سوچا نہیں ہے ارے مجنوں سلیقے سے جنوں کر یہ تیرا پرسنل صحرا نہیں ہے

    مزید پڑھیے