Mubeen Mirza

مبین مرزا

معروف پاکستانی فکشن نویس، شاعر اور صحافی۔ ادبی جریدے ’مکالمہ‘ کے مدیر۔

Noted Pakistani fiction writer, poet, and journalist; also the editor of literary journal "Mukalema".

مبین مرزا کی غزل

    دن رات کے دیکھے ہوئے منظر سے الگ ہے

    دن رات کے دیکھے ہوئے منظر سے الگ ہے یہ لمحہ تو موجود و میسر سے الگ ہے موجیں کہ بگولے ہوں مرے دل کا ہر اک رنگ صحرا ہے جدا اور سمندر سے الگ ہے وہ شے کہ لگے جس سے مری روح پہ یہ زخم واقف ہی نہیں تو ترے خنجر سے الگ ہے پوشیدہ نہیں مجھ سے یہ دنیا کی حقیقت باہر سے مرے ساتھ ہے اندر سے الگ ...

    مزید پڑھیے

    تری بزم سے جو اٹھ کر ترے جاں نثار آئے

    تری بزم سے جو اٹھ کر ترے جاں نثار آئے دل و جاں کا سب اثاثہ ترے در پہ وار آئے ترا عشق بن گیا ہے مری زیست کی مسافت کہ میں اب جہاں بھی جاؤں تری رہ گزار آئے تری یاد آج ایسے دل مبتلا میں آئی سر دشت شام جیسے شب نو بہار آئے غم زندگی میں تجھ پر دل و جاں نثار کر دوں غم آرزو میں ڈھل کر تو جو ...

    مزید پڑھیے

    کچھ درد جگائے رکھتے ہیں کچھ خواب سجائے رکھتے ہیں

    کچھ درد جگائے رکھتے ہیں کچھ خواب سجائے رکھتے ہیں اس دل کے سہارے جیون میں ہم بات بنائے رکھتے ہیں ایسے بھی مراحل آتے ہیں اس منزل عشق کی راہوں میں جب اشک بہاتے ہیں خود بھی اس کو بھی رلائے رکھتے ہیں کیا اس سے کہیں اور کیسے کہیں ان رنگ بدلتی آنکھوں سے کیا شوق امڈتے ہیں دل میں کیا وہم ...

    مزید پڑھیے

    قرینے زیست میں تھے سوختہ جانی سے پہلے

    قرینے زیست میں تھے سوختہ جانی سے پہلے بہت آباد تھے ہم خانہ ویرانی سے پہلے بدلتے موسموں کے ساتھ غم بھی آئے لیکن غموں کی شان الگ تھی اس فراوانی سے پہلے انہی خوش ذوق لوگوں میں بہت چرچے رہے ہیں ہماری خوش لباسی کے بھی عریانی سے پہلے جو یار مہرباں نالاں ہے اب میری طلب سے اسے شکوہ ...

    مزید پڑھیے

    چلے جائیں گے سب اسباب حیرانی نہ جائے گی

    چلے جائیں گے سب اسباب حیرانی نہ جائے گی کسی صورت دل و جاں کی یہ ارزانی نہ جائے گی سو اب طے ہے نہ جائیں گی یہ دل کی وحشتیں جب تک رگوں میں اس امڈتے خوں کی طغیانی نہ جائے گی سبب یہ ہے کہ پہلے ہو چکا ہے فیصلہ سو اب گواہی دی تو جائے گی مگر مانی نہ جائے گی تجھے اس در سے لینا تھا نیا رنج و ...

    مزید پڑھیے

    کبھی خدا کبھی خود سے سوال کرتے ہوئے

    کبھی خدا کبھی خود سے سوال کرتے ہوئے میں جی رہا ہوں مسلسل ملال کرتے ہوئے مگن تھا کار محبت میں اس طرح کہ مجھے خبر نہ ہو سکی اپنا یہ حال کرتے ہوئے کسے بتاؤں گزارا ہے میں نے بھی اک دور مثال ہوتے ہوئے اور مثال کرتے ہوئے وہ جذب و شوق ہی آخر عذاب جاں ٹھہرا حرام ہو گیا جینا حلال کرتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ محبت ہے اسے گرمئ بازار نہ کر

    یہ محبت ہے اسے گرمئ بازار نہ کر لاکھ وحشت سہی ایسا تو مرے یار نہ کر آج یہ سوچ کہ کل کیسے سنبھالے گا اسے بے سبب دل میں گمانوں کا یہ انبار نہ کر زیست ہر آن تغیر کا نشاں ہے لیکن یار کل تک جو رہے آج انہیں اغیار نہ کر ان بدلتے ہوئے رنگوں کے تماشے پہ نہ جا یہ جو دنیا ہے تو اپنا اسے معیار ...

    مزید پڑھیے

    خوشی سے زیست کا ہر دکھ اٹھائے جاتے ہیں

    خوشی سے زیست کا ہر دکھ اٹھائے جاتے ہیں ہم اہل دل کی روایت نبھائے جاتے ہیں جنوں کی راہ میں بجھ بجھ کے اب بھی دیوانے چراغ شعلۂ جاں سے جلائے جاتے ہیں وہ فرد جرم ہی اے منصفو نہیں میری مجھے یہ فیصلے جس پر سنائے جاتے ہیں تعلقات میں دو طرفہ سرد مہری ہے بس ایک وضع کو دونوں نبھائے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    نہ آہ کرتے ہوئے اور نہ واہ کرتے ہوئے

    نہ آہ کرتے ہوئے اور نہ واہ کرتے ہوئے جئیں گے ضبط کو اپنی پناہ کرتے ہوئے وہ ایک رنگ جو چھلکے گا اس کی آنکھوں سے وہ جیت لے گا مجھے اک نگاہ کرتے ہوئے بدل بھی سکتی ہے دنیا یہ جانتا ہوں مگر میں ہار جاؤں گا اس سے نباہ کرتے ہوئے میں سب حساب رکھوں گا سفیدیوں سے پرے اب اپنی فرد عمل کو ...

    مزید پڑھیے

    ہر گھڑی اک ستم ایجاد کیا ہے ہم نے

    ہر گھڑی اک ستم ایجاد کیا ہے ہم نے شہر دل خود تجھے برباد کیا ہے ہم نے آج اس کے ہی کرشموں سے ہیں محجوب بہت کل جسے خود ہی پری زاد کیا ہے ہم نے اک عمارت کہ اٹھانی ہے سر دشت وجود سو غم جاں تجھے بنیاد کیا ہے ہم نے اپنے سینے میں اتارے کئی خنجر سو بار تجھ کو اک بار جو ناشاد کیا ہے ہم نے کس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3