یہ محبت ہے اسے گرمئ بازار نہ کر

یہ محبت ہے اسے گرمئ بازار نہ کر
لاکھ وحشت سہی ایسا تو مرے یار نہ کر


آج یہ سوچ کہ کل کیسے سنبھالے گا اسے
بے سبب دل میں گمانوں کا یہ انبار نہ کر


زیست ہر آن تغیر کا نشاں ہے لیکن
یار کل تک جو رہے آج انہیں اغیار نہ کر


ان بدلتے ہوئے رنگوں کے تماشے پہ نہ جا
یہ جو دنیا ہے تو اپنا اسے معیار نہ کر


مسئلہ حل بھی تو ہو سکتا ہے کچھ سوچ کے دیکھ
یوں بگڑ کر مری ہر بات سے انکار نہ کر


میں تجھے روک نہیں سکتا مگر جاتے ہوئے
یہ جو امکان کا در ہے اسے دیوار نہ کر


دوستی ختم ہوئی صاف بتا دے مجھ کو
کم سے کم یوں کسی دشمن کی طرح وار نہ کر