Moni Gopal Tapish

مونی گوپال تپش

مونی گوپال تپش کی غزل

    راتوں میں جب سنی کبھی شہنائی دیر تک

    راتوں میں جب سنی کبھی شہنائی دیر تک رگ رگ میں تیرے غم نے لی انگڑائی دیر تک سنتے ہیں بزم یار میں چہرے اتر گئے کس نے وفا کی داستاں دہرائی دیر تک زینے سے آسماں کے اتر آئی چاندنی آنگن میں آ کے بیٹھی تو سستائی دیر تک اک مختصر سے لمحے نے پہچان چھین لی یوں تو رہی ہے ان سے شناسائی دیر ...

    مزید پڑھیے

    تیرے پلٹ آنے سے دل کو اور اک صدمہ ہوا

    تیرے پلٹ آنے سے دل کو اور اک صدمہ ہوا وہ نقش اب باقی کہاں جو تھا ترا چھوڑا ہوا یوں آج آئینے سے مل کر جسم سناٹے میں ہے اک اور ہی چہرہ تھا اس میں کل تلک ہنستا ہوا دونوں کہیں مل بیٹھ کر بہہ جائیں پل بھر کے لیے اس وقت سے ہٹ کر کے ہو دریا کوئی بہتا ہوا مشکوک آنکھوں سے نکلتے ہیں بچھڑنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3