تیرے پلٹ آنے سے دل کو اور اک صدمہ ہوا

تیرے پلٹ آنے سے دل کو اور اک صدمہ ہوا
وہ نقش اب باقی کہاں جو تھا ترا چھوڑا ہوا


یوں آج آئینے سے مل کر جسم سناٹے میں ہے
اک اور ہی چہرہ تھا اس میں کل تلک ہنستا ہوا


دونوں کہیں مل بیٹھ کر بہہ جائیں پل بھر کے لیے
اس وقت سے ہٹ کر کے ہو دریا کوئی بہتا ہوا


مشکوک آنکھوں سے نکلتے ہیں بچھڑنے کے صلے
تو سوچ لے مل جاؤں گا میں تو یہیں ٹھہرا ہوا


شاعر کہاں تھا صرف تھا جذبات کا تاجر تپشؔ
ساحل کی سوکھی ریت میں اکثر یہی چرچا ہوا