Moni Gopal Tapish

مونی گوپال تپش

مونی گوپال تپش کی غزل

    سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے

    سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے اپنے انجام کا پتہ ہے مجھے نیند سے خواب ہو گئے رخصت زندگی جیسے اک سزا ہے مجھے اس نے رغبت سے ہاتھ کھینچ لیا اب کہاں کوئی سوچتا ہے مجھے دوستی کا بھرم ہی توڑ دیا ان دنوں جانے کیا ہوا ہے مجھے جس کی نیندوں میں خواب میرے تھے جب سے جاگا ہے ڈھونڈتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیاں سب بند کمروں اور دالانوں کے بیچ

    کھڑکیاں سب بند کمروں اور دالانوں کے بیچ بٹ گئے پریوار آخر سینکڑوں خانوں کے بیچ مجھ کو دنیاں جان لیتی تھی کسی کے نام سے واقعے گم ہو گئے ہیں جیسے افسانوں کے بیچ میں ہوں چھوٹا تو بڑا ہوگا میں کیسے مان لوں اب یہی چرچا ہے اپنوں اور بیگانوں کے بیچ اک طرف ترک تعلق اک طرف ہے اس کی ...

    مزید پڑھیے

    مرے قریب سے گزرے مجھے سدا بھی نہ دے

    مرے قریب سے گزرے مجھے سدا بھی نہ دے زباں کو لفظ نگاہوں کو حوصلہ بھی نہ دے اب اس سے کیسے تعلق کی آرزو رکھیں دعائے خیر تو کیا وہ کہ بد دعا بھی نہ دے یہ چاندنی میں گلاسوں میں گھول دوں نہ کہیں میں چاہتا ہوں وہ یادوں کا آسرا بھی نہ دے ہمیں پہ سجتے ہیں یارو شراب بھی غم بھی خدا کے واسطے ...

    مزید پڑھیے

    جنوں گر بڑھ گیا رسوائیاں برباد کر دیں گی

    جنوں گر بڑھ گیا رسوائیاں برباد کر دیں گی نہ یوں پیچھے چلو پرچھائیاں برباد کر دیں گی تمہیں ضد ہے اکیلے ہی چلو گے سوچ کر دیکھو یہ کچھ آساں نہیں تنہائیاں برباد کر دیں گی پرانے زخم ایسے کھول کر رکھنے سے کیا حاصل یہ اپنے پر ستم آرائیاں برباد کر دیں گی خوشی میں کیا ہے جو غم میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کاش اقرار کر لیا ہوتا

    کاش اقرار کر لیا ہوتا دو گھڑی پیار کر لیا ہوتا ہاں وہی زندگی کا مقصد تھا اس سے اظہار کر لیا ہوتا گر چراغوں میں خون باقی تھا شب کو تلوار کر لیا ہوتا زندہ رہنے کا اک وسیلہ تھا غم طرحدار کر لیا ہوتا کوئی شکوہ نہیں تپشؔ تم سے ورنہ سرکار کر لیا ہوتا

    مزید پڑھیے

    گرد آلودہ فضا بینائی گرد آلود تھی

    گرد آلودہ فضا بینائی گرد آلود تھی پتھروں کے شہر میں سنوائی گرد آلود تھی پتیوں پر تھی رقم سارے چمن کہ داستاں اور چمن کہ داستاں آرائی گرد آلود تھی خون میں ڈوبی ہوئی کچھ انگلیاں تھیں سوچ میں دور وہ تھا حاشیہ آرائی گرد آلود تھی وہ اسے اوڑھے رہا چہرہ پہ خوشبو کہ طرح ہاں وہی جس شخص ...

    مزید پڑھیے

    من کے آنگن میں خیالوں کا گزر کیسا ہے

    من کے آنگن میں خیالوں کا گزر کیسا ہے یہ چہکتا ہوا ویران سا گھر کیسا ہے میرا ماضی جہاں بکھرا سا پڑا ہے ہر سو اب وہ پیپل کے تلے اجڑا کھنڈر کیسا ہے سخت پتھراؤ تھا کل رات تری بستی میں دن نکلنے پہ یہ دیکھیں گے کہ سر کیسا ہے جان دینا ہے ہمیں ایک شوالے کے قریب آپ بتلائیں ذرا آپ کا در ...

    مزید پڑھیے

    سناٹوں کے جنگل میں کھوئی ہوئی خوشبو تھی

    سناٹوں کے جنگل میں کھوئی ہوئی خوشبو تھی آہٹ جو سنی کوئی سہمی ہوئی خوشبو تھی اس گھر میں گلابوں سے کچھ راگ مہکتے تھے ماحول میں جادو تھا گاتی ہوئی خوشبو تھی گفتار میں پھولوں کی برسات کا عالم تھا پہنا ہوا گلشن تھا اوڑھی ہوئی خوشبو تھی ڈالی سے کوئی موسم جیوں ٹوٹ کے گر جائے بے ربط ...

    مزید پڑھیے

    سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے

    سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے اپنے انجام کا پتہ ہے مجھے نیند سے خواب ہو گئے رخصت زندگی جیسے اک سزا ہے مجھے اس نے رغبت سے ہاتھ کھینچ لیا اب کہاں کوئی سوچتا ہے مجھے دوستی کا بھرم ہی توڑ دیا ان دنوں جانے کیا ہوا ہے مجھے جس کی نیندوں میں خواب میرے تھے جب سے جاگا ہے ڈھونڈھتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیاں سب بند کمروں اور دالانوں کے بیچ

    کھڑکیاں سب بند کمروں اور دالانوں کے بیچ بٹ گئے پریوار آخر سینکڑوں خانوں کے بیچ مجھ کو دنیا جان لیتی تھی کسی کے نام ثے واقعے گم ہو گئے ہیں جیسے افسانوں کے بیچ میں ہوں چھوٹا تو بڑا ہوگا میں کیسے مان لوں اب یہی چرچا ہے اپنوں اور بیگانوں کے بیچ اک طرف ترک تعلق اک طرف ہے اس کی یاد ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3