سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے

سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے
اپنے انجام کا پتہ ہے مجھے


نیند سے خواب ہو گئے رخصت
زندگی جیسے اک سزا ہے مجھے


اس نے رغبت سے ہاتھ کھینچ لیا
اب کہاں کوئی سوچتا ہے مجھے


دوستی کا بھرم ہی توڑ دیا
ان دنوں جانے کیا ہوا ہے مجھے


جس کی نیندوں میں خواب میرے تھے
جب سے جاگا ہے ڈھونڈھتا ہے مجھے


چند جلتے سوال بجھتا دل
زندگی تو نے کیا دیا ہے مجھے


سارے رشتے جب اس نے توڑ لیے
مڑ کے اب کیا پکارتا ہے مجھے


اب ہوں بجھتے دئے سا سورج تھا
ان حوالوں کو سوچنا ہے مجھے


کیوں تپشؔ الجھنوں میں الجھا ہے
اس کے بارے میں جاننا ہے مجھے