دور تک سبزہ کہیں ہے اور نہ کوئی سائباں
دور تک سبزہ کہیں ہے اور نہ کوئی سائباں زیر پا تپتی زمیں ہے سر پہ جلتا آسماں جیسے دو ملکوں کو اک سرحد الگ کرتی ہوئی وقت نے خط ایسا کھینچا میرے اس کے درمیاں اب کے سیلاب بلا سب کچھ بہا کر لے گیا اب نہ خوابوں کے جزیرے ہیں نہ دل کی کشتیاں لطف ان کا اب ہوا تو ہے مگر کچھ اس طرح جیسے صحرا ...