Mohsin Zaidi

محسن زیدی

معروف ترقی پسند شاعر / یوپی کے شہر بہرائچ میں پیدائش/ فراق کے شاگرد

Well-known progressive poet who hailed from Bahraich, a small town in UP, India.

محسن زیدی کی غزل

    دور تک سبزہ کہیں ہے اور نہ کوئی سائباں

    دور تک سبزہ کہیں ہے اور نہ کوئی سائباں زیر پا تپتی زمیں ہے سر پہ جلتا آسماں جیسے دو ملکوں کو اک سرحد الگ کرتی ہوئی وقت نے خط ایسا کھینچا میرے اس کے درمیاں اب کے سیلاب بلا سب کچھ بہا کر لے گیا اب نہ خوابوں کے جزیرے ہیں نہ دل کی کشتیاں لطف ان کا اب ہوا تو ہے مگر کچھ اس طرح جیسے صحرا ...

    مزید پڑھیے

    اک آس تو ہے کوئی سہارا نہیں تو کیا

    اک آس تو ہے کوئی سہارا نہیں تو کیا رستے میں کچھ شجر تو ہیں سایہ نہیں تو کیا رہتا ہے کوئی شخص مرے دل کے آس پاس میں نے اسے قریب سے دیکھا نہیں تو کیا تو ہی بتا کہ چاہیں تجھے اور کس طرح یہ تیری جستجو یہ تمنا نہیں تو کیا ہم دور دور رہ کے بھی چلتے رہے ہیں ساتھ ہم نے قدم قدم سے ملایا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    رستے میں کوئی آ کے عناں گیر ہو نہ جائے

    رستے میں کوئی آ کے عناں گیر ہو نہ جائے یہ جذبۂ جنوں مرا زنجیر ہو نہ جائے اس کو جو اب کسی سے شکایت نہیں رہی پھر کیوں وہ سب سے مل کے بغل گیر ہو نہ جائے میں نے زبان دی ہے تو لب وا کروں گا کیا لیکن زبان خلق سے تشہیر ہو نہ جائے منظر یہ حشر خیز جو پیش نگاہ ہے ڈرتا ہوں میرے خواب کی تعبیر ...

    مزید پڑھیے

    یہ جور اہل عزا پر مزید کرتے رہے

    یہ جور اہل عزا پر مزید کرتے رہے ستم شعار محرم میں عید کرتے رہے ہمارے دم سے رہا دور بادہ پیمائی کہ اپنے خون سے ہم مے کشید کرتے رہے گلہ تو یہ ہے کہ جتنے امیر شہر ہوئے غریب شہر کو سب نا امید کرتے رہے کیا ہے ہم نے ہمیشہ ہی کاروبار زیاں کہ سستا بیچ کے مہنگا خرید کرتے رہے کسی سے شہر ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہرے ہوئے نہ بہتے ہوئے پانیوں میں ہوں

    ٹھہرے ہوئے نہ بہتے ہوئے پانیوں میں ہوں یہ میں کہاں ہوں کیسی پریشانیوں میں ہوں اک پل کو بھی سکون سے جینا محال ہے کن دشمنان جاں کی نگہبانیوں میں ہوں یوں جل کے راکھ خواب کے پیکر ہوئے کہ بس اک آئینہ بنا ہوا حیرانیوں میں ہوں جب راہ سہل تھی تو بڑی مشکلوں میں تھا اب راہ ہے کٹھن تو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    باغ سارا تو بیاباں نہ ہوا تھا سو ہوا

    باغ سارا تو بیاباں نہ ہوا تھا سو ہوا جو خزاں کا کبھی احساں نہ ہوا تھا سو ہوا ہم تو بیدار ہوئے خواب سے اپنے لیکن وہ بھی خوابوں میں پریشاں نہ ہوا تھا سو ہوا ہم بھی کچھ سوچ کے کر بیٹھے بالآخر شکوہ وہ بھی پہلے تو پشیماں نہ ہوا تھا سو ہوا مشعلیں سر کی سجائی گئیں طشت زر میں کب سے مقتل ...

    مزید پڑھیے

    یہ سخن جو میری زباں پہ ہے یہ سخن ہے اس کا کہا ہوا

    یہ سخن جو میری زباں پہ ہے یہ سخن ہے اس کا کہا ہوا یہ بیاں جو ہے مرے نام سے یہ بیاں ہے اس کا لکھا ہوا وہی میلی میلی سی چاندنی وہی دھندلی دھندلی سی روشنی یہ چراغ کوئی چراغ ہے نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا وہی ایک یاد کرن کرن مری زندگی میں ہے ضو فگن وہی ایک چہرہ چمن چمن سر دشت جاں ہے کھلا ...

    مزید پڑھیے

    یوں سمجھ لو کہ بجز نام خدا کچھ نہ رہا

    یوں سمجھ لو کہ بجز نام خدا کچھ نہ رہا جل کے اس آگ میں سب خاک ہوا کچھ نہ رہا کس کا سر کس کی ردا کس کا مکاں ڈھونڈتے ہو قتل و غارت میں تو کوئی نہ بچا کچھ نہ رہا ہم کسی اور کے ہونے کی خبر کیا دیتے گم ہوئے ایسے کہ اپنا بھی پتا کچھ نہ رہا کچے رنگوں کی طرح اڑ گئے سارے ہی حروف کورے کاغذ پہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے

    کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے کسی کے ساتھ دریا جا رہا ہے یہ بستی بھی نہ کیا راس آئی اس کو اٹھا کر کیوں وہ خیمہ جا رہا ہے کہیں اک بوند بھی برسا نہ پانی کہیں بادل برستا جا رہا ہے دیے ایک ایک کر کے بجھ رہے ہیں اندھیرا ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے پہاڑ اوپر تو نیچے کھائیاں ہیں جہاں سے ہو کے ...

    مزید پڑھیے

    جانا ہے اسی سمت کہ چارہ نہیں کوئی

    جانا ہے اسی سمت کہ چارہ نہیں کوئی جس سمت کو رستہ بھی نکلتا نہیں کوئی بس دل کا ہے سودا کوئی بازی نہیں سر کی تھوڑا سا ہے نقصان زیادہ نہیں کوئی منجدھار میں کشتی کا بدلنا نہیں منظور ایسی مجھے ساحل کی تمنا نہیں کوئی ہر شخص یہاں گنبد بے در کی طرح ہے آواز پہ آواز دو سنتا نہیں کوئی ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4